Maktaba Wahhabi

338 - 358
(خُذِى مِنْ مَالِهِ مَا يَكْفِيكِ وَيَكْفِى بَنِيكِ - أو قال - مَا يَكْفِيكِ وَيَكْفِى ولدك بِالْمَعْرُوفِ)(رواہ مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب 4) ’’ اس کے مال میں سے اتنا لے لے جو کہ تیرے لیے اور تیرے بچوں کے لیے کافی ہو۔‘‘ دوسرے الفاظ یوں ہیں’’ جو تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے عرف کے مطابق کافی ہو۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خاوند کے مال سے بقدر کفایت عرف کے مطابق وصول کرنے کی اجازت دے دی، چاہے اسے اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ سائلہ کے سوال میں یہ بات مذکور ہے کہ اس نے خاوند کے سامنے حلف اٹھایا کہ اس نے اس کے مال میں سے کچھ نہیں لیا تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اس کا یہ حلف اٹھانا حرام ہے، بجز اس صورت کے وہ تاویلا ایسی قسم اٹھائے وہ یوں کہ قسم اٹھاتے وقت اس کی نیت یہ ہو کہ میں نے ایسی کوئی چیز نہیں لی جس کا لینا مجھ پر حرام تھا، یا یہ نیت ہو کہ واللہ میں نے تجھ پر واجب اخراجات سے زائد کچھ نہیں لیا، یا اس طرح کی کوئی تاویل جو اس کے شرعی حق کے مطابق ہو۔ انسان کے مظلوم ہونے کی صورت میں ایسی تاویل جائز ہے۔ اور اگر انسان ظالم ہو یا ظالم ہو نہ مظلوم۔ تو اس صورت میں ایسی تاویل جائز نہیں ہے۔ ایسی عورت جس کا خاوند اس کے اور بچوں کے واجب اخراجات کی ادائیگی کے لیے بخل سے کام لیتا ہو تو ایسی عورت مظلوم ہی ہے۔ …شیخ محمد بن صالح عثیمین… اپنے چہرے کے غیر عادی بال زائل کرنا سوال 34: کیا عورت کے لیے ابرو کے ایسے بال اتارنا یا انہیں باریک کرنا جائز ہے جو اس کے منظر کی بدنمائی کا باعث ہوں؟ جواب: اس مسئلے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ابرو کے بال اکھاڑے جائیں تو یہ عمل حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے کیونکہ یہ(نمص)ہے جس کے مرتکب پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بال مونڈ دئیے جائیں، تو اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ آیا یہ نمص ہے یا نہیں؟ اولیٰ یہ ہے کہ عورت اس سے بھی احتراز کرے۔ باقی رہا غیر معتاد بالوں کا معاملہ یعنی ایسے بال جو جسم کے ان حصوں پر اُگ آئیں جہاں عادتا بال
Flag Counter