Maktaba Wahhabi

339 - 358
نہیں اُگتے مثلا عورت کی مونچھیں اُگ آئیں یا رخساروں پر بال آ جائیں تو ایسے بالوں کے اتارنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ وہ خلاف عادت ہیں اور چہرے کے لیے بدنمائی کا باعث ہیں۔ جہاں تک ابرو کا تعلق ہے تو ان کا باریک یا پتلا ہونا یا چوڑا اور گھنا ہونا یہ سب کچھ امر معتاد ہے اور معتاد سے تعرض نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ بعض لوگ اسے عیب نہیں سمجھتے بلکہ کسی ایک انداز کے ہونے کو خوبصورتی سمجھتے ہیں۔ یہ ایسا عیب نہیں ہے کہ انسان کو اس کے ازالے کی ضرورت پیش آئے۔ …شیخ محمد بن صالح عثیمین… عورت کا سر پر بالوں کا جوڑا بنانا سوال 35: عورت کے لیے سر پر بالوں کا جوڑا بنانے کا کیا حکم ہے؟ جواب: سر پر بالوں کا جوڑا بنانا اہل علم کے نزدیک اس تحذیر اور نہی کے ضمن میں آتا ہے جس کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں وارد ہے: (صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا: قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الجَنَّةَ، وَلا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَتُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا)(صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب 34) ’’ دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ ایک وہ لوگ کہ ان کے ہاتھوں میں گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے، جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسرے وہ عورتیں جو ننگی ہوں گی(لوگوں کی طرف)مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی جھکی ہوئی کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی، حالانکہ اس کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے پائی جاتی ہے۔‘‘ اس حدیث میں آگے چل کر ان عورتوں کا ذکر ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہیں مگر حقیقتا ننگی ہیں۔ خود لوگوں کی طرف مائل ہونے والیاں اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والیاں ہیں۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی جھکی ہوئی کوہان کی طرح ہوں گے۔‘‘ اگر سر کے بال اوپر اکٹھے کر لیے جائیں
Flag Counter