Maktaba Wahhabi

342 - 358
جواب: ایسا کرنا کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے۔ یہ(تنمیص)بال نوچنا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال نوچنے والی اور ایسا مطالبہ کرنے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور لعنت اس فعل کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کا حسن وہی ہے جس پر اس کی تخلیق ہوئی۔ ابرو کے یہ بال انسانی چہرے کی خوبصورتی کے لیے بنائے گئے ہیں جو کہ مٹی وغیرہ سے اس کی آنکھوں کی حفاظت کا باعث ہیں۔ لہذا ان کا ازالہ کرنا اور باریک کرنا، خلق اللہ کو تبدیل کرنا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ …شیخ ابن جبرین… منافق آدمی سب سے بدتر ہے سوال 39: میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو مجھ سے اور دوسرے لوگوں سے گفتگو کرتے وقت دوغلے پن(دو رخی)کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا اس پر خاموش رہوں یا انہیں ان کی حقیقت بتا دوں؟ جواب: لوگوں سے دو رخی گفتگو کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (تَجِدُونَ شَرَّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ، يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ)(البخاری، المناقب، باب 1، الادب 52، الاحکام 37، و مسلم، البر والصلۃ، باب 98، 99) ’’ تم سب لوگوں سے بدتر دو رخ آدمی کو پاؤ گے جو ان کے پاس ایک چہرے کے ساتھ آتا ہے جبکہ دوسروں کے پاس دوسرے چہرے کے ساتھ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے اور دنیوی مقصد کے تحت اس کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے، جبکہ اس کی عدم موجودگی میں لوگوں کے سامنے اس کی مذمت کرتا اور عیب جوئی کرتا ہے، اکثر لوگوں کے ساتھ اس کا یہی رویہ ہوتا ہے۔ لہذا جو شخص بھی اس کے اس رویے سے آگاہ ہو اسے لوگوں کی خیرخواہی کرتے ہوئے اس منافقانہ عمل سے بچنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ ایک نہ ایک دن لوگ اس کے اس قابل مذمت رویے سے آگاہ ہوں گے۔ پھر وہ اس سے نفرت کا اظہار کریں گے اور احتیاطا اس کی صحبت سے دور رہیں گے۔ اس طرح اس کے غلط مقاصد کی تکمیل ممکن نہ ہو سکے گی۔ اگر وہ نصیحت سے فائدہ نہ اٹھائے تو لوگوں کو اس سے اور اس کے کردار سے خبردار کرنا چاہیے۔ چاہے اس کی عدم موجودگی میں ہی ایسا کرنا پڑے، حدیث میں ہے: (اذْكُرُو الفاجر بِمَا فِيهِ كي يَحْذَرَهُ النَّاسُ)(الکافی الشاف فی تخریج
Flag Counter