Maktaba Wahhabi

354 - 358
فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾(المومنون 23؍5-6) ’’ اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت رکھنے والے ہیں، ہاں البتہ اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے نہیں، کہ اس صورت میں ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔(یعنی وہ ان سے جماع کر سکتے ہیں)‘‘ اللہ تعالیٰ نے لفظ(عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ)مطلقا بیان فرمایا ہے اور یہ اس لیے کہ اصل میں آدمی کا اپنی بیوی سے استمتاع ہر حالت میں جائز ہے۔ کتاب و سنت میں عورت سے اجتناب کے بارے میں وارد احکام ہی اس عموم سے مانع ہو سکتے ہیں، اس بناء پر حاملہ عورت سے جماع کے جواز کے بارے میں کسی مستقل دلیل کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جواز اصل ہے۔ آدمی کے لیے دوران حیض شرم گاہ میں جماع کرنا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ وہ کسی بھی حصے سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بیوی کی دبر میں جماع کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ گندگی اور نجاست کا محل ہے۔ نفاس کی حالت میں بھی خاوند بیوی سے جماع نہیں کر سکتا۔ جب وہ حیض اور نفاس سے پاک ہو جائے تو اس سے جماع کرنا جائز ہے۔ اگر عورت نفاس کے دوران چالیس دن سے پہلے ہی پاک ہو جائے تو جماع کرنا جائز ہے۔ …شیخ محمد بن صالح عثیمین… بے دین والدہ کی فرمانبرداری کرنا سوال 57: میری والدہ صراط مستقیم پر گامزن نہیں۔ میں نے اسے جب بھی نصیحت کی وہ مجھ سے ناراض ہو گئی۔ کئی کئی دن گزر جاتے ہیں وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتی۔ میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ مجھ پر ناراض بھی نہ ہو کہ اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے، یا پھر اسے ایسے ہی چھوڑ دوں تاکہ وہ مجھ سے راضی رہے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی؟ جواب: اپنی والدہ کو بار بار نصیحت کریں اور اسے بتائیں کہ اس کا عمل باعث گناہ و عقاب ہے۔ اگر وہ پھر بھی قبول نہ کرے تو اس کے خاوند، باپ یا ولی کو اس سے آگاہ کریں، تاکہ وہ اسے سمجھائیں۔ اگر آپ کی ماں کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتی ہے تو اس سے الگ ہو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی بددعائیں یا آپ پر قطع رحمی اور نافرمانی کے الزامات آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، کیونکہ آپ نے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے غیرت اور منکر کا انکار کرنے کے پیش نظر کیا ہے، اور
Flag Counter