Maktaba Wahhabi

104 - 249
جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو نماز نہ پڑھے، اس کی راہ نہ چھوڑی جائے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((نُہِیتُ عنْ قتلِ المُصَلِّین)) ’’مجھے نماز ادا کرنے والوں کے قتل سے روکا گیا ہے۔‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کے قتل سے آپ کو نہیں روکا گیا، اور کتاب و سنت سے شرعی دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جو شخص نمز نہ پڑھے اور توبہ نہ کرے تو حکام کو اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کے دوست کو توبہ کی طرف لائے اور اسے سیدھی راہ دکھائے۔ تارک نماز کے ساتھ رہنے کا حکم سوال:… مجھے ایک دفعہ کسی ہسپتال میں جانا پڑا۔ میرے ساتھ دو اور آدمی اسی کمرہ میں داخل ہوئے جس میں میں رہتا تھا۔ ہم وہاں تین دن تک رہے، اس دوران میں تو نماز ادا کرتا رہا لیکن وہ نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ وہ مسلمان تھے اور میرے شہر کے تھے۔ میں نے انہیں کچھ نہیں کہا۔ اب مجھ پر کوئی گناہ ہے جو میں نے انہیں نماز کے لیے نہیں کہا؟ اور اگر اس میں گناہ ہے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟ (معمیس۔ ع) جواب:… انہیں نصیحت کرنا آپ پر واجب تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان پر ترک نماز جیسے منکر عظیم پر گرفت کرنا چاہیے تھی: ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُالْمُفْلِحُوْنَ،﴾ (آل عمران: ۱۰۴) ’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے اور بھلے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ اور اس معنی میں اور بھی بہت سی آیات آئی ہیں۔‘‘ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل کرتے ہوئے بھی: ((مَنْ رأی منکُم مُنکَرًا فلْیُغیِّرہ بیَدِہ، فانْ لمْ یسطعْ فبلِسانِہ، فانْ لمْ یسطعْ فبقلبِہ، وذلِک اضعفُ الایمان)) ’’تم میں سے جو شخص کوئی بری بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو زبان سے بدل دے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ادنیٰ تر درجہ ہے۔‘‘
Flag Counter