Maktaba Wahhabi

131 - 249
ہے کہ حج تین قسم کا ہے۔ افراد، قران اور تمتع۔ جو شخص حج کرے اس کا احرام باندھنا بھی صحیح اور اس کا حج بھی صحیح ہے اور اس پر کوئی فدیہ نہیں۔ لیکن اگر وہ اس کے بجائے عمرہ کا ارادہ کر لے تو یہ اہل علم کے صحیح تر قول کے مطابق افضل ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو، جنہوں نے حج افراد کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ کو ملا کر قران کا احرام باندھا تھا لیکن ان کے ساتھ قربانی نہ تھی، یہ حکم دیا کہ وہ اس احرام کو عمرہ کا احرام قرار دے لیں۔ پھر طواف اور سعی کریں، بال کتروائیں اور احرام کھول دیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے احرام کو باطل نہیں کہا بلکہ انہیں افضل عمل کی راہ دکھلائی۔ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کیا۔ یہ کوئی افراد حج کا نسخ نہیں تھا بلکہ یہ تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے عمل کی طرف راہنمائی تھی جو اس سے افضل واکمل تھا… اور توفیق عطا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کسی شخص نے اپنے لیے حج کی نیت کی، بعد میں اسے خیال آیا کہ وہ اپنے کسی قریبی کے لیے نیت کر لے، کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ سوال:… کسی شخص نے اپنے لیے حج کی نیت کی اور وہ خود پہلے حج کر چکا تھا۔ جب وہ عرفہ میں تھا تو اسے خیال آیا کہ وہ اپنے کسی قریبی کے لیے حج کی نیت بدل لے۔ اس کا کیا حکم ہے اور کیا اسے یہ جائز ہے یا نہیں؟ جواب:… انسان جب اپنے لیے حج کا احرام باندھ لے تو پھر وہ نیت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ نہ راستے میں، نہ عرفات میں اور نہ کسی اور جگہ۔ بلکہ یہ حج اسی کے لیے لازم ہے۔ اس کے باپ یا ماں یا کسی دوسرے کے لیے بدل نہیں سکتا۔ اسی کے لیے متعین ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۱۹۶) ’’اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو۔‘‘ گویا جب اس نے اپنے لیے احرام باندھا تو اپنے لیے ہی اسے پورا کرنا واجب ہوگیا اور اگر وہ کسی دوسرے کے لیے احرام باندھتا تو اسے دوسرے کے لیے ہی پورا کرتا۔ لیکن احرام باندھنے کے بعد وہ اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا، اگرچہ وہ اپنی طرف سے حج پہلے کر چکا ہو۔
Flag Counter