Maktaba Wahhabi

132 - 249
میں چاہتا ہوں کہ اپنے والدین کی طرف سے حج کروں یا کوئی ایسا آدمی تیار کروں جو ان دونوں کی طرف سے حج کرے۔ میرے لیے کون سی بات مشروع ہے؟ سوال:… میں چھوٹا سا تھا کہ میری والدہ فوت ہوگئی۔ میں نے ایک شخص کو حج کا خرچہ دے کر والدہ کی طرف سے حج کے لیے پابند کیا۔ نیز میرا والد بھی فوت ہوچکا ہے۔ میں ان دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں پہچانتا۔ میں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنا ہے کہ اس نے حج کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آیا میں اپنی والدہ کے حج کے لیے کسی دوسرے کو بھیج سکتا ہوں یا یہ ضروری ہے کہ میں خود ہی اس کی طرف سے حج کروں؟ نیز کیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتا ہوں جبکہ میں نے سنا ہے کہ اس نے حج کیا تھا؟ میں توقع رکھتا ہوں کے آپ مجھے مستفید فرمائیں گے۔ شکریہ! (معمس۔ ع۔ جدہ) جواب:… اگر آپ خود ان کی طرف سے حج کریں اور مناسک حج ادا کرنے میں شرعی احکام کا پوری طرح خیال رکھیں تو یہ بہت بہتر بات ہے اور اگر کسی دیندار اور امانت دار آدمی کو بھیج دیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اور بہتر یہ ہے کہ آپ ان کی طرف سے حج اور عمرہ کریں اور اگر اس معاملہ میں کسی کو نائب بنائیں تو اسے بھی یہی کہیں کہ وہ ان کی طرف سے حج اور عمرہ کرے اور یہ کام آپ کی طرف سے ان کے لیے نیکی اور احسان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ کی طرف سے قبول فرمائے۔ ایک عورت نے حج کے مناسک خود ادا کیے مگر رمی جمار کے لیے کسی دوسرے کو وکیل مقرر کیا، اس کا کیا حکم ہے؟ سوال:… ایک عورت نے حج ادا کیا اور اس کے تمام مناسک خود ادا کیے۔ مگر رمی الجمار کے لیے کسی دوسرے کو وکیل بنایا۔ کیونکہ اس کے ساتھ چھوٹا سا بچہ تھا۔ اس کا کیا حکم ہے؟ یہ خیال رہے کہ یہ اس کا فرض حج تھا۔ (فہید۔ ا۔ا تقصیم) جواب:… اس معاملہ میں اس کے ذمہ کچھ نہیں۔ وکیل کی طرف سے رمی الجمار اسے کافی ہے۔ کیونکہ رمی جمار کے وقت بہت ہجوم ہوتا ہے جو عورتوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ بالخصوص جبکہ اس کے ساتھ چھوٹا بچہ بھی تھا۔
Flag Counter