Maktaba Wahhabi

157 - 249
کہ وہ اپنے مصرف میں صرف نہ ہو جائے۔ آپ نے جو یہ کام کیا، پھر امانت میں خیانت کی وجہ سے ان کے سامنے جھوٹ بولا، آپ پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ لازم ہے اور جو شخص سچی توبہ کرے، اللہ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ کے آگے سچے دل سے توبہ کرو۔‘‘ (التحریم: ۸) نیز فرمایا: ﴿وَتُوْبُوْا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ،﴾ ’’اور اے ایمان والو! سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(النور: ۳۱) اور سچی توبہ ان باتوں پر مشتمل ہے۔ وہ اپنے سابقہ گناہوں پر نادم ہو۔ اللہ سبحانہ سے ڈرتے ہوئے اور اس کی عظمت کی خاطر اسے یکسر چھوڑ دے اور آئندہ ایسا کام نہ کرنے کا پختہ عہد کرے اور اگر توبہ کرنے والے نے ان لوگوں سے نا انصافیاں کی ہیں تو ان کا مداوا کرے خواہ یہ نا انصافیاں خون میں ہوں یا مال میں یا عزت میں ہوں۔ یا لوگوں سے معاف کروائے اور اگر اس نے لوگوں پر غیبت کی قسم سے زیادتی کی ہو اور ڈرتا ہو کہ اور زیادہ نقصان ہوگا تو پھر انہیں نہ بتلائے اور ان کے لیے دعا واستغفار کرے اور غیبت کر کے لوگوں سے اس کی جو برائیاں بیان کر چکا، اس کے عوض اب لوگوں سے اس کی خوبیاں ظاہر کرے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ یتیم کے مال کے احکام سوال:… ایک یتیم کے گھر والے فوت ہوگئے تو ہم نے اس کی حفاظت وپرورش کا ذمہ لیا۔ اس کے دو چچا تھے اور جو شخص ان سے بھلائی کرنا چاہتا، اسے کچھ پیسے دے دیتے اور وہ ہماری آمدنی ہوتی تھی۔ یہ خیال رہے کہ جو کچھ ہمیں آمدنی ہوتی اور وہ اس (پر خرچ) سے زیادتی ہوتی تھی اور ہم اسے اپنے گھر کا ایک فرد شمار کرتے تھے۔ اس مسئلہ میں ہمیں مستفید فرمائیے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔‘‘(محمدی۔ ع۔ع۔ جدہ) جواب:… اس یتیم کو جو صدقات دیئے جاتے ہیں، آپ وہ لے لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جبکہ یہ صدقات اس خرچ کے برابر یا کم ہوں جو آپ نے اس یتیم پر کیا ہو اور اگر وہ صدقات اس کے خرچ سے زیادہ ہوں تو آپ پر لازم ہے کہ وہ زائد رقم اس یقیم کے لیے محفوظ رکھیں۔ آپ کو اس کی پرورش اور اس پر احسان کی بنا پر بہت بڑے اجر کی خوشخبری ہو۔
Flag Counter