Maktaba Wahhabi

168 - 249
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اذا خَطَبَ الیکُم مَنْ تَرْضَوْنَ دینَہ وخُلُقَہ فزوِّجُوہ، الاَّ تَفعَلُوا؛ تَکُنْ فتنۃٌ في الارضِ وفسادٌ کبیرٌ)) ’’جب کوئی شخص تمہیں منگنی کے لیے کہے جس کے دین اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ اور بہت بڑا فساد بپا ہو جائے گا۔‘‘ اور اگر آپ کو یہ معاملہ شرعی عدالت میں لے جانا پڑے تو اس میں بھی آپ پر کوئی تنگی نہیں۔ لوگ حق مہر میں غلو کرتے اور بڑی بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں کیا ایسے اموال حلال ہیں یا حرام؟ سوال:… میں بھی اور تمام لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر لوگ حق مہر کے معاملہ میں غلو کرتے اور اپنی بیٹیوں کی شادی کے نزدیک بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نیز بعض دوسری اشیاء دینے کی شرط لگاتے ہیں… کیا ایسے اموال جو لیے جاتے ہیں وہ حلال ہیں یا حرام؟ (بشیر۔ ع۔ الخرج) جواب:… مشروع بات یہ ہے کہ مہر میں تخفیف اور اس کی رقم تھوڑی ہو اور اس بارے میں بہت سی وارد احادیث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور شادی کو آسان بنانا اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی عفت پر حریص ہونا چاہیے۔ اور لڑکیوں کے اولیاء کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے لیے اموال کی شرط لگائیں۔ کیونکہ اس معاملہ میں ان کا کوئی حق نہیں۔ بلکہ حق اگر ہے تو وہ صرف عورت کا ہے۔ یا پھر خاص کر اس کے باپ کا۔ وہ ایسی شرط لگا سکتا ہے جس سے اس کی بیٹی کو تکلیف نہ ہو تاہم وہ اس شادی میں تاخیر نہ کرے اور اگر وہ اس شرط کو بھی چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے بہتر اور افضل ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاَنکِحُوْا الْاَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَائِکُمْ اِِنْ یَکُوْنُوْا فُقَرَائَ یُغْنِہِمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ ’’اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کرایا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔ اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے خوشحال کر دے گا۔‘‘(النور: ۳۲) اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خیرُ الصَّداقِ ایْسَرُہ))
Flag Counter