Maktaba Wahhabi

174 - 249
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ابغض الحلال الی اللہ: الطلاق)) ’’اللہ کے ہاں حلال چیزوں میں سب سے قابل نفرت چیز طلاق ہے۔‘‘ اور اگر یوں کہے کہ طلاق ہے میں ایسا ضرور کروں گا یا ایسا نہیں کروں گا تو یہ ناپسندیدہ بات ہے جو جائز نہیں کیونکہ یہ غیر اللہ کی قسم ہے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ایک شخص نے یہ کہتے ہوئے قسم اٹھائی ’’آئندہ سال اس پر طلاق‘‘ تو اس کا کیا حکم ہے؟ سوال:… ایک شخص جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی بھول کر یہ کہتے ہوئے قسم اٹھائی کہ ’’آئندہ سال اس پر طلاق میں یہ کچھ خریدوں گا۔‘‘ اور جب وہ نہ خریدے تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی… اور اگر وہ نہیں خریدتا تو اس پر کیا تاوان ہے؟ یہ خیال رہے کہ اس کو بھی طلاق کی قسم اٹھانے کی عادت نہ تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے۔‘‘(ن۔ ر۔ ن ۔ الریاض) جواب:… اس طرح کے کلام میں خاوند کی نیت کے حساب سے اس کے حکم میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ اگر خاوند کا مقصد اس چیز کے خریدنے پر اپنے نفس کو ابھارنا اور ترغیب دلانا تھا اور اپنی بیوی سے جدائی کا مقصد نہ تھا۔ اگرچہ اس نے ضرورت کی وہ چیز نہ خریدی ہو جس کا اس نے طلاق میں ذکر کیا ہے۔ تو یہ طلاق اہل علم کے اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق قسم کے حکم میں ہوگی اور اس پر کفارہ لازم ہے۔ جو کہ دس مسکینوں کا کھانا ہے۔ ہر مسکین کے لیے اس علاقہ کی خوراک سے نصف صاع ہے۔ خواہ یہ کھجور ہو یا کوئی اور چیز ہو اور اس کی مقدار تقریباً کلو ہے اور اگر وہ دس مسکینوں کو رات کو کھانا کھلائے یا صبح کا کھانا کھلا دے یا انہیں اتنی پوشاک دے دے جس میں نماز ادا ہو سکتی ہو تو یہ کافی ہے۔ البتہ اگر اس کا ارادہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ہی تھا جبکہ اس نے وہ ضرورت کی چیز نہیں خریدی تو اس پر طلاق واقع ہو جائے گی اور اسے ایک طلاق سمجھا جائے گا جبکہ اس نے فی الواقع وہی الفاظ کہے ہوں جو سوال میں مذکور ہیں۔ مومن کو چاہیے کہ وہ ایسی مشتبہ باتوں میں طلاق کا لفظ استعمال کرنے سے پرہیز کرے۔ کیونکہ اکثر اہل علم صرف اتنی بات پر ہی طلاق واقع کر دیتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنِ اتَّقَی الشُّبُھاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَا لِدِیْنِہ وعِرْضِہ)) ’’جو شخص شبہات سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا۔‘‘
Flag Counter