Maktaba Wahhabi

218 - 249
جواب:… سورہ تبت بھی قرآن کریم کی سورتوں میں سے ایک سورت اور باقی سورتوں کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس میں ابولہب کا حال بیان ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر اور اس کی بیوی پر خسارہ اور جہنم میں داخل ہونے کا حکم لگایا ہے کیونکہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہچانتے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں فرمایا ہے: ﴿فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ﴾ ’’قرآن سے جو کچھ میسر آئے، پڑھو۔‘‘(المزمل: ۲۰) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو، جس نے نماز بگاڑ کر ادا کی تھی، کہا: ’’پھر قرآن جو تجھے یاد ہو اس سے جتنا آسانی سے پڑھ سکو، پڑھو۔‘‘ یہ قرآنی نص اور نبوی نص سورت تبت کو اسی طرح عام ہیں جیسے باقی سورتوں کو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اے سائلہ! آپ ہی راہ صواب پر ہیں۔ رہا تمہاری بہن کا معاملہ تو وہ غلطی پر ہے تو اسے اپنی بات پر اور اس سورت کو نماز میں پڑھنے کو اچھا نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس نے قول باطل اور اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کہی… ہم اپنے لیے، آپ کے لیے اور آپ کی بہن کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور توفیق کی دعا کرتے ہیں۔ مسجد میں تلاوت کے وقت آواز بلند کرنے کا حکم سوال:… کیا مسجد میں بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ جبکہ اس وقت مسجد میں بعض نمازی نقل ادا کر رہے ہوں؟ (ابراہیم۔ م۔ ضرماء) جواب:… مسجد میں اس وقت بلند آواز سے قراء ت نہیں کرنا چاہیے، جب کہ اردگرد کے نمازی یا قرآن پڑھنے والے تشویش میں پڑ جائیں۔ اسی طرح اگر قاری مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ ہو اور اس کے اردگرد نمازی یا قاری ہوں تو بھی آواز بلند نہیں کرنا چاہیے۔ لہٰذا سنت یہ ہے کہ ان پر آواز بلند نہ کی جائے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ایک دن آپ مسجد میں تشریف لائے تو کچھ لوگ نماز ادا کر رہے تھے اور کچھ بلند آواز سے قراء ت کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلُّکُم یُناجی اللّٰہَ؛ فلَا یُؤذِ بَعضُکم بعضًا)) ’’تم میں ہر کوئی اللہ سے سرگوشی کر رہا ہے۔ لہٰذا کوئی دوسرے شخص کو ایذا نہ دے۔‘‘
Flag Counter