علتوں سے محفوظ وسلامت مان بھی لیا جائے تو بھی ان میں اور ان صحیح احادیث میں تطبیق ممکن نہیں جو عورتوں کے لیے سونے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور ان کی تاریخ معلوم نہ ہو تو ایسی احادیث پر شذوذ کا حکم لگانا واجب ہے اور اہل علم کے ہاں اس معتبر شرعی قاعدہ کے مطابق ان پر عمل کرنا درست نہیں۔
اور جو کچھ ہمارے دینی بھائی علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ’’آداب الزفاف‘‘ میں ذکر کیا، وہ یہ ہے کہ آپ نے حلت وحرمت والی دونوں قسم کی احادیث میں یوں تطبیق کی کہ گولائی دار زیوروں کو حرمت والی احادیث پر محمول کیا اور دوسرے زیوروں کو جواز والی احادیث پر، تو یہ بات صحیح نہیں۔ نہ ہی یہ ان صحیح احادیث کے مطابق ہے جو جواز پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان میں انگوٹھی کا جواز ہے اور وہ گول ہے اور کنگنوں کا جواز ہے اور وہ بھی گول ہیں۔ جن سے اسی بات کی وضاحت ہوتی ہے، جو ہم نے ذکر کی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جو احادیث سونے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں وہ مطلق ہیں، مقید نہیں ہیں۔ لہٰذا ان احادیث کے اطلاق اور ان کیا سناد کی صحت کی وجہ سے انہیں ہی قبول کرنا واجب ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اہل علم کی ایک جماعت کا ایسی احادیث کے منسوخ ہونے پر اجماع ہے جو حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسا کہ ابھی ابھی ہم نے ان کے اقوال نقل کیے ہیں۔ اور یہی بات درست ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ اس سے شبہ زائل ہو جاتا ہے اور وہ شرعی حکم واضح ہو جاتا ہے جس میں شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ سونا امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں پر حرام ہے… اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق عطا کرنے والا ہے…
ہاتھ کے اشارہ سے سلام کہنے کا کیا حکم ہے؟
سوال:… ہاتھ کے اشارہ سے سلام کہنے کا کیا حکم ہے؟ (قاری)
جواب : اشارہ سے سلام کرنا جائز نہیں ۔سنت یہی ہے کہ داخل ہوتےہی زبان سے سلام کہاجائے۔ اشارہ سے سلام کرنا اس لیےجائز نہیں کہ اس میں بعض کفار سے مشابہت ہےاور اس لیے بھی کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا۔
تاہم اگر کوئی شخص دورہونے کی وجہ سے کسی شخص کواشارہ سے بھی سلام کرے ،جسے وہ سمجھ سکے اور زبان سے بھی سلام کہے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ ایسی حدیث بھی آئی ہےجو اس پر دلالت کرتی ہے ۔ اس طرح جس شخص کو سلام کہا گیا ہے اگر وہ نماز میں مشغول ہو تووہ اشارہ سےجواب دےسکتا ہے۔ جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سےیہ بات ثابت ہے ۔
|