Maktaba Wahhabi

261 - 249
دوسرے کا خون سے علاج کرانے کا کیاحکم ہے ؟ سوال : دوسرے کے خون سے علاج کرانے کاکیا حکم ہے ؟ جواب: جب دوسرے کاخ ون لینے کی مجبوری پیش آجائے تو ایک بھائی کا اپنا خون دے کر دوسرے کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ یہ کام طبیب کی زیر نگرانی ہو اور وہ یہ یقین دلائےکہ خون دینے والے کو کچھ نقصان نہ ہو گا ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ﴾ جو کچھ تم پر حرام کیا گیا ہے وہ اللہ نے کھول کر بیان کر دیا ۔ الا یہ کہ تم کسی چیز کےلیے مجبور ہو جاؤ۔‘‘( الانعام : 119) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ, لَا يَظْلِمُهُ, وَلَا يُسْلِمُهُ, وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ, كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ)) مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے جو نہ اس پر زیادتی کرتا ہے نہ اسے کسی کےحوالہ کرتا ہے اور جوشخص اپنے بھائی کے کام میں لگا ہوتاہے اللہ اس کے کام پر لگا ہوتا ہے ۔ یہ حدیث جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، اس پر شیخین کااتفاق ہےاور اس معنی میں بہت احادیث ہیں ۔ کیا مرد کےلیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے بدن کےبال جیسے پشت اور پنڈلیوں کے بال زائل کر دے ؟ سوال : کیامرد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے جسم سے پیٹھ، پنڈلیوں ،رانوں ، شرمگاہ اور بغل کے بال مونڈھ دے، جبکہ اس سے اس کا ارادہ عورتوں سے یا اہل کتاب وغیرہ کے کافروں سے مشابہت نہ ہو ۔ خالد ۔ ا۔ع۔ شیہبہ الدوحہ جواب :جن جگہوں کا ذکر کیا کیا ہے ،وہاں سے بال زائل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جس سے نہ توبدن کو کوئی ضررپہنچے اور نہ ہی اس سے مقصود عورتوں یا کافروں سے مشابہت ہو، کیونکہ ہر چیز کی اصل اباحت ہے اورکسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں کہ وہ چیز کو حرام قرار دے جب تک کہ کوئی دلیل اس کی حرمت پر دلالت نہ کر رہی ہواور اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مونچھیں کتروانا ، ناخن کٹوانا ، بغلوں کو صاف کرنا ، شرمگاہ کےبال مونڈنا اور مردوں کےلیے سرمونڈنا مشروع کیا ہے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہےاور ہمیں حکم دیاہے
Flag Counter