Maktaba Wahhabi

141 - 326
یَفْعَلُوْنَ٭مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْن﴾ (الانعام۶؍۱۵۹۔۱۶۰) ’’جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور (مختلف) پارٹیاں بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے تھے۔ جو نیکی لے کر آیا تو اس کے لئے اس کا دس گناہ (اجروثواب) ہے اور جوبرائی لے کر آیا، اسے صرف اس کے برابر ہی بدلہ (گناہ اور عذاب) ملے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ حدیث ثابت ہے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ) ’’میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنی کاٹنے لگو۔‘‘ افتراق کی مذمت میں اور بھی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں۔ اگر مسلمانوں کے حکمران نے انہیں اس انداز سے منظم کیا ہو کہ زندگی کے مختلف اعمال اور دینی ودنیوی معاملات ان کے درمیان تقسیم کردئیے ہوں تاکہ ہر شخص دین یا دنیا کے کسی پہلوسے متعلق اپنا فرض اداکرے تو یہ درست ہے۔ بلکہ یہ مسلمانوں کے حکمران کا فرض ہے کہ (تقسیم کار کے اصول پر) رعایا پر مختلف اقسام کے دینی اور دنیوی فرائض تقسیم کردے۔ مثلاً ایک جماعت کو علم حدیث کی خدمت کیلئے مقرر کرے وہ اسے دوسروں تک پہنچانے، مدون کرنے اور صحیح وضعیف احادیث کی پہچان وغیرہ کا کام کرے، دوسری جماعت فقہ کی تدوین اور تعلیم وتعلم میں مشغول ہوجائے، تیسری جماعت عربی زبان گرائمر اور زبان ادبی‘ بلاغت اور اس کے علمی اسرار کوظاہر کرنے کی خدمات انجام دے، چوتھی جماعت جہاد کرے، مسلمانوں کی سرزمین کی حفاظت کرے، مزید علاقے فتح کرے اور اسلام کی نشرواشاعت میں پائی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرے، ایک اور جماعت صنعتی اور زرعی پیداوار اور تجارت کے فرائض انجام دے۔ اسی طرح دوسرے کام بھی کئے جائیں تو اس قسم کی تقسیم زندگی کی ضرورت ہے، اس کے غیر امت کا نظام قائم رہ سکتا ہے نہ اس کے بغیر اسلام کی حفاظت اور نشرواشاعت ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سب لوگ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے عمل پیرا رہیں، ان سب کا ہدف ایک ہو، اسلام کی تائیدونصرت۔ اس کے دفاع اور خوشحال زندگی کے وسائل کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، سب کے سب اسلام زیر سایہ،اس کے جھنڈے تلے اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ پر چلتے رہیں، گمراہ کن راستوں پرچلنے سے اجتناب کریں اور ہلاک ہونے ولے فرقوں سے بچ کررہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (الانعام۶؍۱۵۳) ’’اور یہ میرا راستہ ہے بالکل سیدھا، تو اس کی پیروی کرو اور (دوسری) راہوں کی پیروی نہ کرو (ورنہ) وہ تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی اور اس نے تمہیں یہ نصیحت کی ہے تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘ نبوی طریقہ دعوت وتبلیغ ہی بہتر ہے سوال دونوں میں سے کون سا کام بہتر ہے۔ سیاست کے ذریعے اسلام کے لئے کام کرنا، یا لوگوں کو نبوی طریقہ کی طرف
Flag Counter