Maktaba Wahhabi

144 - 326
﴿وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم ۶۸؍۴) ’’آپ عظیم (عمدہ ترین) اخلاق پر کاربند ہیں‘‘ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی‘ تحریری اور عملی طور پر دعوت وتبلیغ کا ایک طریق کار پیش کردیا ہے تو یہ محمدی دعوت کی سراپا حکمت ورحمت والی پالیسی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے وضع فرمائی ہے۔ لہٰذا اسلامی جماعتوں کے مبلغین کا فرض ہے کہ وہ حکمت‘ موعظۂ حسنہ اور جدال احسن پر مبنی اصولوں کو پیش نظر رکھیں اور ہر کسی سے اس کی ذہنی سطح کے مطابق بات کریں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے دین کی مدد فرمائے گا اور ان کے تیروں کو ان کے بھائیوں کی طرف سے پھیر کر دشمنوں کی طرف کردے گا۔ ’’وہی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشنے والا ہے۔‘‘ شہداء کے احترام میں خاموش کھڑے ہونا سوال کیا شہداء کیلئے ایک منٹ کھڑا ہونا جائز ہے؟ کیونکہ جب کوئی خاص تقریب شروع ہوتی ہے تو لوگ شہیدوں کی روحوں کے احترام میں یا اظہار افسوس کیلئے ایک منٹ خاموش کھڑے ہوتے ہیں۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: شہداء یا سرداروں کے احترام میں یا ان کی ارواح کی عزت کرتے ہوئے یا ان پر اظہار افسوس کیلئے تھوڑی دیر خاموش کھڑا ہونابرابر ہے کیونکہ یہ ان بدعتوں میں شامل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم اوصحابہ کرامjکے زمانے میں موجود نہیں تھیں اور یہ توحید کے آداب اور اللہ تعالیٰ کی خالص تعظیم کے منافی ہے بلکہ دین سے ناواقف بعض مسلمانوں نے اس بدعت کو جاری کرنے والے کافروں کی پیروی میں اور ان کے اپنے زندہ اور مردہ مسرداروں کے بارے میں غلو پر مبنی بری رسموں کی پیروی میں اختیار کرلیاہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ اسلام میں فوت ہونے والوں کے جوحقوق معروف ہیں، وہ یہ ہیں کہ فوت ہونے والے مسلمانوں کے لئے دعا کی جائے، ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے، ان کی خوبیان بیان کی جائیں، ان کی خامیوں کے بارے میں خاموشی اختیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے آداب ہیں جو اسلام نے بیان کئے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے زندہ اور مردہ بھائیوں کے ان حقوق کی پاسداری کی ترغیب دلائی ہے۔ ان آداب میں کسی سردار یا شہید کے لئے خاموش کھڑا ہونا شامل نہیں۔بلکہ یہ اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ(۴۸۸۹) خیر کی توفیق کسے حاصل ہے؟ سوال اللہ کے ہاں توفیق والا کون ہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: خیر کی توفیق اسے حاصل ہے جو دین اسلام پر مضبوطی سے قائم ہے۔ عقیدہ میں، اقوال میں اور افعال میں قرآن وسنت اور
Flag Counter