Maktaba Wahhabi

186 - 326
بن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث میں جس سیدھی لکیر کا ذکر ہے، اسسے بھی یہی مراد ہے، صحابہ کرام اور سلف صالحین اسی راہ پر گامزن رہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی فرقے یا طرق وغیرہ ہیں وہ ان ’’سبل‘‘ میں شامل ہیں جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔ ﴿وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ (الانعام۶؍۱۵۳) ’’سبل (غلط راہوں) پر نہ چلنا، ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے دور ہٹادیں گی۔‘‘ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۵۱۵۶) اہل تصوف کی عبادات میں بکثرت بدعات ہوتی ہیں سوال آج کل صوفیہ کے سلسلے بکثرت پائے جاتے ہیں، مثلاً نقشبندیہ اور قادریہ،ہمارے ہاں مراکش میں جیلانیہ،تجانیہ،ترقاویہ،وازانیہ،دلائیہ،ناصریہ،علویہ،کتانیہ اور دیگر بہت سے ناموں سے سلسلے موجود ہیں۔ میں نے ان کے اور ادووظائف دیکھے تو باہم ملتے جلتے ہیں۔ سب کے ہاں صبح کے اوراد میں سوبار استغفار اور سوبار درود شریف (مختلف الفاظ کے ساتھ) اور سوبار لا الہ الا اللہ اور شام کو بھی اسی قسم کے وظیفے میں، اس کے ساتھ نماز بروقت ادا کرنے کی ترغیب ہے۔ کیونکہ جو شخص ان سے وظیفہ حاصل کرتاہے اس کے لئے نماز باجماعت کی پابندی ایک لازمی شرط ہے۔ لیکن اخوان المسلمون کے بعض علماء کہتے ہیں کہ صوفی طرق میں شامل ہونے والا شخص گمراہ،بدعتی اور مشرک ہے، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صوفیانہ سلسلے اور طریقے موجود نہیں تھے۔ اس لئے میں آپ سے تسلی بخش جواب چاہتاہوں، کیونکہ ’’مشرک‘‘ کا لفظ بہت سخت ہے اور مشرک پر تو جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: صوفیانہ سلسلہ کے مشائخ پر زہد اور عبادت کا رنگ غالب ہے۔ لیکن ان کی عبادتوں میں بکثرت بدعتیں اور خرافات موجودہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے منفرد نام کا ذکر کرنا مثلاً (اللہ۔ حی۔ قیوم) یا ضمیر غائب کے ساتھ اس کا ذکر کرنا۔ ھو۔ھو۔ھو…)یا ایسے نام سے ذکر کرنا جسے اللہ تعا لیٰ نے اپنا نام بیان نہیں فرمایا مثلاً (آہ۔آہ۔آہ) اس کے ساتھ ساھت وہ جھومتے ہیں، کبھی نیچے جھکتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شعروں کے الفاظ یہا ذکر کے کلمات کے حرکات وسکنات کو منضبط کرنے کے لئے بسا اوقات ساز بھی بجاتے ہیں۔ یہ تمام کام ایسے ہیں جو رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً ثابت ہیں نہ عملاً اور نہ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم ان سے واقف تھے۔ بلکہ یہ سب نو ایجاد کام ہیں۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلیغ وعظ ارشاد فرمایا، جس سے ہمارے دلوں میں خشیت پیدا ہوئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ ہم نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے الوداع کہتے وقت نصیحتیں کی جاتی ہیں۔ تو ہمیں (کوئی خاص) وصیت فرمائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أُوُصِیکُمْ بِتَقْویٰ اللّٰہِ وَالسَّمِیْعِ وَالطَّاعَۃِ وَأِنْ کَانَ عَبْداً حَبَشِیاًّ، وَأِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ
Flag Counter