Maktaba Wahhabi

190 - 326
بار لا الہ لا اللہ کہنے کی اجازت دیتا ہوں، پھر وہ اس اجازت کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک‘ پھر جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے اللہ تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے یا غلط؟ کیا یہ اجازت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا یہ بھی ایک بدعت ہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کیلئے بندے کو کسی پیر یا شیخ کی اجازت کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شحص تلاوت قرآن مجید‘ تسبیح وتمحید‘ تکبیرو تہلیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے دوسرے اذکار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو یاد کرسکتاہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دلا ئی ہے۔ اس کے بعد کسی کی اجازت کے کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ اگر کوئی صوفی شیخ یا اس کا کوئی مرید یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر نام کا ایک خادم ہوتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شرعی طریقے سے یاد کرنا بھی اس وقت تک منع ہے جب تک پیر اپنے مرید کو اجازت نہ دے تو اس نے دین میں ایک نئی بات ایجادکر لی ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا ہے، کیونکہ اس طرح کی کسی بات کی دلیل قرآن وحدیث سے نہیں ملتی۔ اس لئے بعض صوفیوں کے ا س طرح کے خیالات بدعت میں شامل ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ھَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ) ’’جس نے ہمارے دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں شامل نہیں ہے تو وہ رد کی جائے گی۔‘‘ واللہ المستعان۔ بزرگوں کے سلسلے دین میں داخل نہیں سوال شیخ عبدالقادر جیلانی یا ابو الحسن شاذلی وغیرہ بزرگوں کی طرف جو سلسلے منسوب ہیں، کیا ان میں داخل ہونے اور ان کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج ہے؟ کیا یہ کام سنت ہے یا بدعت؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: امام ابو داؤد اور دیگر محدثین نےحضرت عریاض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی ہے کہ ایک دن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف رخ اور کیا اور ایک انتہائی پر تاثیر وعظ ارشاد فرمایا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور دل دہل گئے۔ ایک صاحب نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو ایسا وعظ ہے جیسے کوئی الوداع کہنے والا نصیحت کیا کرتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا عہد وپیمان لینا چاہتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أُوْصیکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَأِنْ کَانَ عَبْداً حَبَشَیّاً، مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرَی اِخْتِلاَفاً کَثِیْراً فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ الْمُھْدِیِّینَ تَمَسَّکُوا بِھَا وَعَضُّوا عَلَیْھَا بِاالنَّوَاجِدِ وَأِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُورِ فَأِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ) ’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اورسن کر حکم ماننے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر بن جائے۔ کیونکہ جو کوئی میرے بعد زندہ رہے گا بڑے اختلاف دیکھے گا۔ تو تم میرے طریقے پر اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے پر کاربند رہنا۔ اسے مضبوطی سے پکڑے رکھنا، بلکہ داڑھوں سے پکڑ
Flag Counter