Maktaba Wahhabi

261 - 326
درزی فرقہ ھشتگین درزی کا پیروکار ہے۔ یہ شخص مصر کے عبیدی قبیلہ کے ایک باطنی حکمران ’’الحاکم بامرہ‘‘ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اس نے اسے وادی تیم اللہ بن تعلبہ کے باشندوں کی طرف بھیجا، اس نے انہیں حکم دیا کہ رب ماننے کی دعوت دی۔ یہ لوگ اسے ’’الباری الغلام‘‘ کے نام سے یاد کرتے اور اس کی قسم کھاتے ہیں۔ یہ اسماعیلی فرقہ کی ایک شاخ ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ محمد بن اسماعیل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کردیا ہے۔ یہ لوگ دوسرے غلو کرنے والے فرقوں سے زیادہ سخت کافر ہیں۔ دنیا کے ازلی ہونے کے قائل ہیں۔ قیامت کے منکر ہیں۔ اسلام کے فرائض ومحرمات کے منکر ہیں۔ ان کا تعلق باطنیہ کے فرقہ ’’قرامطہ‘‘ سے ہے جو یہودونصاریٰ اور مشرکین عرب سے بھی بڑھ کر کافر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انہیں فلسفی کہا جاسکتا ہے۔ جو ارسطو وغیرہ کے مذہب پر ہیں یا وہ مجوسی ہیں۔ ان کا عقیدہ فلسفیوں اور مجوسیوں کے عقائد کا ملغوبہ ہے۔ نفاق کے طور پر وہ خود کو شیعہ کہتے ہیں۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی نے روزے کے بعض فرقوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ’’ان لوگوں کے کفر میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، بلکہ جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی انہیں جیسا کافر ہے۔ ان کا مقام اہل کتاب والا ہے نہ مشرکین والا بلکہ یہ گمراہ کافر ہیں۔ لہٰذا ان کا کھانا پینا جائز نہیں، ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا جائے اور ان کے مال (غنیمت کے طور پر) لے لئے جائیں۔ یہ مرتد زندیق ہیں۔ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی بلکہ جہاں ملیں انہیں قتل کیا جائے، ان سے پہرہ یا دربانی کی خدمت نہیں لی جاسکتی۔ ان کے علماء اور (بظاہر) صوفیہ کو بھی قتل کرنا واجب ہے تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ نہ کریں۔ ان کے گھروں میں ان کے ساتھ سونا، ان کے ساتھ چلنا، جب ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ‘ سب حرام ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جو حد اور سزا مقرر کی ہے، اسے نافذ نہ کریں۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان پہلے مکالمہ میں جو کذب بیانی اور فریب ہے اس کی وضاحت (۱) پہلے مکالمہ کے شروع میں مذکور ہے کہ یہ بات چیت ابو ازہر یونیورسٹی کے ایک درزی طالب علم شیخ شوقی حمادہ اور ازہر کے امام شیخ مصطفی رافعی کے درمیان ہوئی‘ جنہیں بعد میں ’’ازھر کے شیخ المشائخ‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ اس کلام میں خلط وتلبیس بھی ہے اور کذب وافترا بھی۔ خلط اس طرح کہ امام ازہرن صاحب کو کہا جاتا ہے جوازہر یونیورسٹی کی جامع مسجد میں پانچویں نمازیں پڑھاتے ہیں اور بسا اوقات جمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کا تعلق وزارت اوقاف سے ہے اور ازھر کے شیخ المشائخ نہ تو نماز کے امام مقرر ہیں نہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں بلکہ وہ ازھر کے تعلیمی امور کے نگران ہیں۔ ان کا عہدہ نماز کے امام سے اعلیٰ مانا جاتا ہے۔ (یعنی یہ وہ الگ الگ شحصیتیں ہیں، جب کہ مذکورہ مکالمہ میں انہیں ایک شخص قرار دیا گیا ہے۔) اس میں جھوٹ اور افترا یہ ہے کہ ازہر کی تاریخ میں کسی دور میں ایک دن کے لئے بھی مصطفی رافعی نام کا کوئی شخص جامع ازھر کا شیخ (چانسلر) نہیں رہا، نہ ازہر کے مشائخ کا استاد رہا۔ یہ تاریخی حقیقت اس دعویٰ کے جھوٹا ہونے پر عظیم ترین شاہد ہے اور یہ اس بات کی پختہ ترین دلیل ہے کہ اس پمفلٹ کو شائع کرنے ولا حقائق کی بنیاد پر نہیں لکھ رہا، بلکہ یہ تمام مکالمہ جعلی اور فرضی ہے اور یہ کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ درزی باطنی فرقہ کی شاخ ہیں جن کا کام بھی جھوٹ‘ فریب اور تقیہ ہے اور کسی چیز کا اپنے معدن میں پایا جانا باعث تعجب نہیں ہوتا۔ (۲) درزی نے اس فرضی شیخ مصطفی رافعی سے سوال کیا: ’’دروز کے متعلق جناب کی کیا رائے ہے؟‘‘ شیخ رافعی نے جواب میں کہا: ’’درزی فرقہ کے لوگ اپنے رسم ورواج اور اخلاق وعادات کے لحاظ سے تو
Flag Counter