Maktaba Wahhabi

236 - 492
کو شادی سے روک رہاہے روز قیامت وہ اس کے خلاف دعویٰ دائر کرے گی جس دن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "جس دن مرد اپنے بھائی اپنی والدہ اپنے والد اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھی دور بھاگے کا اور ہر ایک شخص کے لیے اس دن ایسے ایسی فکر دامن گیر ہوگی جو اس کے لیے کافی ہوگی۔"[1] اس لیے اولیاء کو چاہیے خواہ والدین ہوں یابھائی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا خوف کھاتے ہوئے انہیں شادی کرن سے نہ روکیں ان کاحق ہے کہ جس کا دین اور اخلاق اچھا ہو اس کے ساتھ ان کی شادی کردی جائے۔البتہ اتناضرور ہے کہ اگر لڑکی ایسا لڑکا اختیار کرے جو دینی اور اخلاقی طور پر بہتر نہیں تو پھر ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس سے شادی نہ کرنے دے اور اسے اس سے روک دے۔لیکن اگر لڑکی دینی اور اخلاقی لحاظ سے اچھے شخص کو اختیار کرتی ہے اور پھر اس کا ولی صرف اپنے نفس کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے اس سے شادی نہیں کرنے دیتا تو اللہ کی قسم!یہ حرام ہے اور پھر حرام ہی نہیں بلکہ خیانت اور گناہ بھی ہے۔ایسا کرنے سے جو بھی فتنہ وفساد پیدا ہوگا وہ ہی اس کا ذمہ دار ہوگا اور اس کا گناہ بھی اسی کے سر ہوگا۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ) پیغام نکاح بھیجنے والے کے متعلق لڑکی کے ولی کی مسؤلیت:۔ سوال۔اس آدمی کے متعلق لڑکی کے ولی کی کیا ذمہ داری ہے جو اس کی بیٹی سے منگنی کے لیے آئے؟ جواب۔عورت کے ولی پر واجب ہے کہ وہ اپنی زیر ولایت لڑکی کے لیے کوئی صالح اور کفو(یعنی دین میں برابر کا)آدمی اختیار کرے جس کا دین اور امانت پسندیدہ ہو،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ﴿إذا أتاكم من ترضون دينه وأمانته فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد كبير﴾[2] لہذا ولی پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ا پنی زیر ولایت لڑکی کی مصلحت کاخیال رکھے نہ کہ اپنی مصلحت کاخیال رکھتا پھرے کیونکہ وہ اس چیز کاامین ذمہ دار ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے امانت دے
Flag Counter