Maktaba Wahhabi

251 - 492
کی اجازت ہے؟ جواب۔یہ معاملہ اسراف کے علاوہ اور کچھ نہیں۔مہر میں مسنون یہ ہے کہ وہ تھوڑاہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر اپنی بیویوں کے لیے پانچ سودرہم تھا۔[1] اور جب بھی مہر کم ہوگا نکاح میں برکت اور زوجین کے درمیان محبت زیادہ ہوگی اور سب سے زیادہ برکت والانکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔ اور جب مہرزیادہ ہوگا تو یہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ بنے گا مثلاً اس سے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی معطل ہوکر رہ جائے گی کیونکہ ہر ایک میں مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔اور اگر مہر کم ہونے کی وجہ سے سب کے لیے آسان ہوگا تو مفاسد ختم ہوجائیں گے شادیاں کثرت سے ہوں گی،امت کے افراد میں کثرت ہوگی اور اس طرح افراد اورمعاشرے میں بہت زیادہ برکت ہوجائے گی۔ لہذا میری اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ مہر کو کم سے کم مقرر کیا کریں۔حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے لیے کہ جس نے اپنے نفس کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کردیا تھا مگر آپ نے اس میں رغبت کااظہار نہیں کیا تھا ایک صحابی کو کہا کہ جاؤ تلاش کرو اگر لوہے کی ایک انگوٹھی مل جائے وہ(اسے بطور مہر دینے کے لیے)لے آؤ۔[2] لہذا خیر وبرکت کم مہر میں ہی ہے۔اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والاہے۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ) کیا مہر کی کوئی حد معین ہے؟ سوال۔کیا عورت کے مہر کی کوئی حد معین ہے اور حدیث شریف میں مہر کے آسان ہونے کا کیامقصد ہے؟ جواب۔عورت کے مہر کے لیے کوئی حد معین نہیں لہذا ہروہ چیز جس کامرد مالک ہو اسے عورت کا مہرمقرر کرناجائز ہے خواہ وہ کم مقدار میں ہو زیادہ اور حضر ت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً.﴾ "سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔"[3]
Flag Counter