اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لیے عدل شرط ہے اور اگر آدمی کو پہلے ہی یہ خدشہ ہوکہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں عدل وانصاف نہیں کرسکے گا تو پھر اس کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا منع ہے۔اور تعدد کے جواز کے لیے جو عدل مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ ا پنی بیویوں کے درمیان نفقہ،لباس اور رات بسر کرنے وغیرہ اور مادی اُمور جن پر اس کی قدرت ہے،میں عدل سے کام لے۔
تاہم محبت میں عدل کے بارے میں وہ مکلف نہیں اور نہ ہی اس سے چیزکامطالبہ ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمادیا ہے:
﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾
"اور تم ہرگز عورتوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو۔"[1]
2۔خرچ کی طاقت:
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾
"اور ان لوگوں کو پاکدامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔"[2]
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی نکاح کرنےکی طاقت نہ رکھتا ہو اور اسے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا ہوتو وہ پاکبازی اختیار کرے۔نکاح میں رکاوٹ بننے والی اشیاء میں یہ چیزیں شامل ہیں جس کے پاس نکاح کرنے کے لیے مہر کی رقم نہ ہو اور نہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد ا پنی بیوی کاخرچہ برداشت کرسکے۔(شیخ محمدالمنجد)
چار عورتوں سے زیادہ کو نکاح میں رکھنا:۔
سوال۔کیا مرد چار عورتوں سے زیادہ کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے یا نہیں اور اس کی کیادلیل ہے؟
جواب۔مرد کے لیے چار عورتوں سے زیادہ کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔اس کی دلیل ایک تو یہ
|