Maktaba Wahhabi

397 - 492
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں تعدد زوجات کا ذکر فرمایا ہے وہاں صرف چار تک ہی شادیوں کا ذکر کیا ہے۔[1] اور حدیث میں ہے کہ قیس بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ ان میں سے چار کو اختیار کرلو اور باقی کو چھوڑدو۔[2](سعودی فتویٰ کمیٹی) عورت ایک سے زیادہ شادیاں کیوں نہیں کرسکتی؟ سوال۔عورت کے لیے تین یاچار خاوندوں سے شادی کرنا کیوں جائز نہیں،حالانکہ مرد کے لیے تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرنا جائز ہے؟ جواب۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ پرایمان کے ساتھ ہے اور پھر سب ادیان بھی اس پر متفق ہیں کہ بیوی کے ساتھ خاوند کے علاوہ کوئی اور کوئی ہم بستری نہیں کرسکتا اور ان ادیان میں بلاتردد سب آسمانی ادیان شامل ہیں۔جن میں اسلام اور اصل یہودیت ونصرانیت بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے شرعی احکام کو تسلیم کیا جائے چاہے ہمیں اس کی حکمت سمجھ میں آئے یا وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہو۔کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانی مصلحت کی ہر چیز کو جانتے ہیں اور نہایت حکمت والے ہیں۔ مرد کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے اور عورت کے حق میں ایک سے زیادہ خاوند کی ممانعت کے بارے میں گزارش ہے کہ اس ضمن میں کچھ اُمور ایسے ہیں جو کسی بھی ذی شعور اور صاحب عقل ودانش پر مخفی نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کو ایک برتن کی مانند بنایا ہے جبکہ مرد کی حیثیت برتن جیسی نہیں،اس لیے اگر وہ عورت جس سے ایک سے زیادہ مردوں نے ہم بستری کی ہو حاملہ ہوجائے تو اس کے پیدا ہونے والے بچے کا علم ہی نہیں ہوسکے گا کہ بچے کا باپ کسے قرار دیا جائے۔ اس طرح لوگوں کے نسب اور نسلوں میں اختلاط پید اہوجائے گا جس کی وجہ سے گھروں کے گھر تباہ ہوجائیں گے اور بچے دھتکار دیئے جائیں گے اور عورت پر وہ بچے بوجھ بن جائیں گے۔نہ تو وہ ان کی کماحقہ تربیت کرسکے گی
Flag Counter