Maktaba Wahhabi

431 - 492
شیخ عبدالرحمٰن سعدی رحمۃ اللہ علیہ سے غصے کی حالت میں طلاق کے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا۔ غصے کی حالت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ طلاق(محبت میں نہیں بلکہ)غصے کی حالت میں ہی ہوتی ہے البتہ اگر(غصہ اتنا شدید ہوکہ)وہ غصےکی وجہ سے تمیز و عقل کھوبیٹھے تو وہ مجنون(یعنی پاگل)کے حکم میں ہوگا اور صحیح قول کے مطابق اس کی طلاق واقع نہیں ہو گی۔(شیخ عبد الرحمٰن سعدی) شیخ صالح فوزان حافظہ اللہ نے اس طرح کے سوال کے متعلق فرمایا ہے۔ جب انسان کی غصے کی حالت اس حد تک پہنچ جائے کہ اس کا شعورختم ہوجائے اور وہ یادواشت کھوبیٹھے اس طرح کہ نہ وہ کچھ جان سکتا ہواور نہ ہی کچھ تصور کر سکتا ہوتو ایسی صورت میں نہ اس کے اقوال کا کوئی اعتبار ہے اور نہ ہی طلاق وغیرہ ہو گا۔(شیخ صالح فوزان) صرف ڈرانے کی نیت سے طلاق کا حکم:۔ سوال۔مجھے معلوم ہو اکہ میری بیوی آج اکیلی بازار گئی تھی میں نے اپنی بیوی کو بازار وغیرہ جانے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر تو اگلی بار گھر سے نکل کر بازار گئی تو تجھے طلاق۔میری اس سے نیت محض اسے ڈرانا اور گھر سے نکلنے سے روکنا تھا تو کیا اسے دوبارہ بازار جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہو گئی ہے یانہیں؟ جواب۔جب آپ کی نیت محض عورت کو ڈانٹنایا ڈرانا ہو تو طلاق نہیں ہو تی۔(سعودی فتویٰ کمیٹی) اگر عورت اپنے آپ کو شوہر پر حرام کر لے:۔ سوال۔میری ایک بیوی ہے اور میرے اس سے پانچ بچے ہیں ایک رات ہمارا جھگڑا ہو گیا تو میری بیوی نے غصے میں آکر مجھے اپنے آپ پر تین مرتبہ حرام کر لیا اور کہا کہ تومجھ پر حرام ہے آج کے بعد تو میرے لیے حلال نہیں تو اس کی اس بات کا کیاحکم ہے؟ جواب۔عورت کی طرف سے طلاق واقع نہیں ہو تی خواہ وہ طلاق کے لفظ کے ساتھ طلاق دے یا تحریم کا لفظ استعمال کرے بلکہ طلاق صرف شوہر کی طرف سے ہی واقع ہوتی ہے اس لیے جو کچھ بھی آپ کی بیوی سے صادر
Flag Counter