Maktaba Wahhabi

504 - 492
والدین پر ان کی ضرورت وحاجت کے وقت خرچ کرنا بھی ان کے ساتھ احسان کا ہی ایک حصہ ہے۔ امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہےکہ: والدین اگر فقیر ہوں جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہوا ور نہ ہی ان کے پاس کوئی مال ہو تو اہل علم کا اجماع ہے کہ اس حالت میں اولاد پر ان کا خرچہ واجب ہے۔اور خرچہ کرنے میں بالاتفاق یہ شرط ہے کہ خرچ کرنے والا مالدار ہو اور کشادگی رکھتا ہواور جس پر خرچ کیا جارہا ہے وہ فقیر و محتاج ہو۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد) باپ کا بیٹے پر خرچ کا زیادہ بوجھ ڈالنا:۔ سوال۔میرے والد صاحب مجھ سے ہر وقت مال کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور مطالبات کی کثرت سے مجھے تنگ کرتے ہیں حالانکہ میں بھی صاحب عیال ہوں میری بھی کچھ ضروریات ہیں تو مجھ پر کس حد تک واجب ہے کہ میں اپنے والد کو رقم دوں نیز اس حدیث کا کیا معنی ہے" آپ اور آپ کا مال بھی آپ کے والد کا ہے؟ جواب۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا والد میرا مال لینا چاہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿أنت ومالك لأبيك﴾ "تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔[1] ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے بیٹے کے مال سے جو چاہے کھا سکتا ہےاور بیٹا اپنے والد کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر نہیں کھا سکتا۔ اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا بھی کہنا ہے کہ: والد اپنے بیٹے کے مال سے جو چاہے کھا سکتا ہے مگر بیٹا اپنے والد کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر نہیں کھا سکتا۔ ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ: عطاء رحمۃ اللہ علیہ اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ کوئی شخص اپنے بیٹے کے مال سے جو چاہے بغیر ضرورت لے لے۔ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہےکہ:
Flag Counter