واضح رہے کہ عورت کا بچے پر زیادہ حق اس وقت تک ہے جب تک بچہ بالغ نہ ہوجائے کیونکہ جب وہ بالغ اور سن تمیز تک پہنچ جائے گا تو پھر اسے اختیار دے دیا جائے گا چاہے تو ماں کے پاس چلا جائے اور چاہے تو باپ کے پاس جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے سے کہا:
"اے لڑکے!یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ان دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑلے۔پھر اس بچے نے ماں کا ہاتھ پکڑلیا اور وہ اسے لے کر چلتی بنی۔"[1]
اور اگر بچہ خود فیصلہ نہ کرسکے تو قرعہ ڈال لیا جائے کیونکہ یہ بھی مشروع ہے۔[2]
البتہ اس سے بھی زیادہ بہتر یہ ہے کہ بچے کو والدین میں سے اس کی پرورش میں دیا جائے جس کے پاس رہنے میں بچے کی مصلحت ہو یعنی ان میں سے جو زیادہ نیک اور متقی ہو بچے کو اسی کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
فاسق کا بچوں کی پرورش کرنے کا حکم:۔
سوال۔کیا فاسق سے بچوں کی پرورش کا حق ہو جاتا ہے؟
جواب۔فاسق سے بچوں کی پرورش کا حق ساقط نہیں ہو تا یہی قول راجح ہے(البتہ بہتر یہ ہے کہ بچے کو اس کی پرورش میں نہ دیا جائے تاکہ بچہ بری عادات واخلاق سیکھنے سے بچ جائے)(شیخ عبد الرحمن سعدی)
سات سال کی بیٹی کی پرورش کا حق کس کو ہے؟
سوال۔ایک طلاق یا فتہ عورت کی زیر پرورش دو بیٹیاں ہیں ان میں سے ایک سات برس کی ہو گئی ہے اور دوسری آٹھ ماہ کی ہے اور ان کا والد چاہتا ہے کہ ان دونوں کو ان کی ماں سے لے کر اس کی سوکن(یعنی اپنی دوسری بیوی)کی پرورش میں دے دے(تو اس کا کیا حکم ہے)؟
|