Maktaba Wahhabi

56 - 492
جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے منگنی تو ان کی عمر چھ برس تھی اور جب ان کے ساتھ ہمبستری کی تو ان کی عمر نو برس تھی۔[1] اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھا(کیونکہ خصوصیت کی کوئی دلیل موجود نہیں)اس لیے لڑکی کی بلوغت سے پہلے بھی اس سے نکاح درست ہے اور اس کے ساتھ قبل از بلوغت ہم بستری بھی درست ہے جبکہ وہ ایسی عورتوں میں سے ہو جن جیسی عورتوں سے ہم بستری کی جا سکتی ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی) چھوٹے بچوں کی شادی کا شرعی حکم سوال:اسلام میں دس برس کی عمر کی بچیوں کی شادی ان کی اجازت کےبغیر کیوں جائز ہے؟برائے مہربانی بچوں کی شادی کے شرعی حکم کی وضاحت فرما دیں۔ جواب:چھوٹی بچی کی بلوغت سے قبل شادی کو اسلامی شریعت جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس مسئلے میں تو علمائے کرام کا اجماع بھی منقول ہے اس شادی کے جواز کے دلائل ہیں(جیسا کہ گزشتہ مسئلے میں ذکر کیے گئے ہیں،یہاں تکرار کی غرض سے حذف کر دیے گئے ہیں۔(رقم) لیکن چھوٹی عمر کی بچی کی شادی کے جواز سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے ہمبستری کرنا بھی جائز ہے،بلکہ اس سے ہمبستری اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک وہ اس کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی میں اسی لیے دیر کی تھی۔ امام نووی  کہتے ہیں کہ چھوٹی عمر کی شادی شدہ بچی کی رخصتی اور اس سے ہمبستری کے وقت کے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ اگر بچی کا ولی اور خاوند کسی ایسی چیز پر متفق ہو جائیں جس میں بچی پر کسی قسم کا ضرر نہ ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر وہ دونوں اختلاف کریں تو امام احمد اور ابو عبید کہتے ہیں کہ نو برس کی بچی پر یہ(ہمبستری والا کام)لازم کیا جائے گا اس سے کم عمر والی پر نہیں۔امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اس کی حد یہ ہے کہ وہ جماع کی طاقت رکھے،اس(چھوٹی بچی سے ہمبستری کے جواز)کے وقت میں لڑکیوں کی حالت مختلف ہونے کی وجہ سے اختلاف ہے جس میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی جا سکتی۔
Flag Counter