Maktaba Wahhabi

81 - 492
7۔ رشد،ایسی قدرت جس سے نکاح کی مصلحت اور کفو کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ فقہائے کرام کے نزدیک تو ترتیب ضروری ہے اس لیے ولی کے نہ ہونے یا اس کی نااہلی کی بنا پر یا پھر اس میں شروط نہ پائی جانے کی صورت میں قریبی ولی کو چھوڑ کر دور والے کو ولی بنانا جائز نہیں۔ عورت کا ولی اس کا والد ہے،اس کے بعد جس کے بارے میں وہ وصیت کرے،پھر اس کا دادا،پڑدادا اور اس کے اوپر تک،پھر اس کے بعد عورت کا بیٹا،پھر پوتا اور اس سے نیچے تک،پھر اس کے بعد عورت کا سگا بھائی،پھر والد کی طرف سے بھائی،پھر ان دونوں کے بیٹے،پھر عورت کا سگا چچا،پھر والد کی طرف سے چچا،پھر چچا کے بیٹے،پھر نسب کے قریبی شخص جو عصبہ ہو ولی بنے گا جس طرح کہ وراثت میں ہے اور پھر جس کا کوئی ولی نہیں اس کا ولی مسلمان حکمران یا پھر اس کا قائم مقام قاضی بنے گا۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد) شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی سے دریافت کیا کیا کہ ولایت نکاح میں کیا عدالت شرط ہے؟ تو ان جواب تھا: ولایت نکاح میں عدالت کی شرط ایسا قول ہے کہ جس کا عمل سلف اور دلائل رد کرتے ہیں۔(شیخ عبد الرحمن سعدی) والدين کے بغیر لڑکے اور لڑکی کی شادی سوال:میں اجنبی ملک میں رہائش پذیر ہوں اور کسی اور ملک کی نصرانی لڑکی سے شادی کی ہے،ہم دونوں کا کوئی بھی قریبی اس ملک میں رہائش پذیر نہیں۔میں نے اسے شادی کا پیغام دیا اور وہ رضا مند ہو گئی،بعد میں ہمارا ایجاب وقبول بھی ہوا لیکن میں مہر دینا بھول گیا اور بعد میں اسے کچھ رقم دے دی۔تو کیا یہ شادی صحیح ہے۔ہم نے معاشرے کے رسم ورواج سے ہٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے شادی کی تھی،پھر اس خدشہ سے کہ کہیں ہماری یہ شادی غلط نہ ہو ایک دوسرے کو طلاق دے دی،تو کیا ایسا کرنا صحیح تھا اور کیا اب گواہوں اور اس کے کسی ولی کی موجودگی میں عقد نکاح کرنا واجب ہو گا؟ جواب:جمہور علمائے کرام جن میں امام شافعی،امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ شامل ہیں،کا مسلک یہ ہے کہ کسی بھی مرد کے لیے حلال نہیں کہ وہ عورت سے اس کے ولی کے بغیر شادی کرے خواہ وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ۔ ان کے دلائل میں مندرجہ ذیل آیات شامل ہیں:
Flag Counter