Maktaba Wahhabi

157 - 360
البتہ بھائی بہن اگر غریب ہوں تو ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ میرے نزدیک زیادہ بہتر رائے یہ ہے کہ بھائی بہن اگر غریب ہوں تو انہیں زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے کیونکہ غریب بھائی بہن بھی ان فقرا و مساکین میں شمار کیے جاتے ہیں جن کا تذکرہ زکوٰۃ والی آیت میں ہے۔ ایسے دوسرے رشتہ دار مثلاً خالہ، پھوپھی، خالہ زاد بھائی بہن اور ماموں وغیرہ تو فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ بھائی بہن اگر امیر ہوں تو انہیں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ۔ اسی طرح جس طرح کسی بھی دوسرے مالدار کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "لا تحلُّ الصدقة لغنيٍّ، ولا لذي مِرَّةٍ سَوِيٍّ" کسی مالدار کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور نہ کسی صحت مند انسان کو ہی ۔ دوسری حدیث ہے: "تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ" زکوٰۃ مال داروں سے لی جاتی ہے اور غریبوں کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔ زکوٰۃ والی آیت میں فی سبیل اللہ سے مراد سوال:۔ بعض ہم اثر علماء کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ان بھلائی کے کاموں میں بھی دی جا سکتی ہے جنھیں چند افراد یا سو سائٹی والے انجام دیتے ہیں مسجد یں بنوانا یا ہسپتال اور مدرسے بنوانا یا یتیموں کا ٹرسٹ قائم کرنا وغیرہ ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ زکوٰۃ والی آیت میں فی سبیل اللہ سے مراد ہر وہ نیک اور بھلائی کاکام ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے۔ حالانکہ جمہور مفسرین اور سلف صالحین کے نزدیک فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جہاد ہے یا پھر اسے عام کر کے اس سے مراد نیک اور بھلا کام ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے۔
Flag Counter