Maktaba Wahhabi

238 - 360
ہے۔ اس سلسلے میں دلیل کے طور پر ایک حدیث پیش کی جاسکتی ہے، اگرچہ یہ صحیح حدیث نہیں ہے۔ حدیث یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے جو عورتوں کا ختنہ کرتی تھی فرمایا: "اخفضي ولا تنهكي فإنه أنضر للوجه وأحظى عند الزوج" تھوڑا ختنہ کرو اور بالکل جڑ سے نہ کاٹ ڈالو، کیوں کہ یہ چیز عورت کے چہرے کے لیے باعث تازگی اور اس کے شوہر ے لیے باعث لذت ہے۔ بہرحال یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس میں کسی قسم کی سختی اور تشدد سے کام لیا جائے۔ جو لوگ ا پنی بیٹیوں کا ختنہ کرانا چاہتے ہیں وہ ایسا کرسکتے ہیں اور میں بھی اس کے حق میں ہوں۔ اور جو لوگ نہیں کرانا چاہتے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ بچوں کا ختنہ کرانا اسلامی شعائر میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے علماء کہتے ہیں کہ اگر شہر والوں نے یہ سنت چھوڑدی ہو توامام وقت ان کے خلاف اس وقت تک جنگ کرسکتا ہے، جب تک وہ اس سنت پر عمل نہ کرنے لگیں۔ نکاح سے قبل منگیتر سے تنہائی میں ملنا سوال:۔ میں نے اپنی پسندکی لڑکی کے رشتے کے لیے اس کے گھر والوں کو پیغام دیا، جسے انہوں نے بہ خوشی قبول کرلیا اور ہماری منگنی ہوگئی۔ اس کے لیے ہم نے ایک پارٹی بھی دی جس میں ہماری منگنی کااعلان بھی کردیاگیا۔ کیا رشتے کی باہم رضا مندی اور اس کااعلان اس بات کےلیے شرعاً کافی ہے۔ کہ ہم دونوں ایک ساتھ تنہائی میں مل سکیں؟ جواب:۔ منگنی اور نکاح ہر اعتبار سے دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ منگنی تو نکاح کی طرف محض ایک پیش قدمی ہے۔ اسلامی شریعت نے بھی منگنی اور نکاح کے درمیان بڑا فرق رکھا ہے۔ منگنی کی چاہے جس قدر تشہیر اور اعلان ہوجائے اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہوتی کہ فریقین نکاح کے لیے راضی ہیں۔ اسی لیے نکاح پر جس طرح کچھ حقوق
Flag Counter