Maktaba Wahhabi

290 - 360
کافی ہو ۔ اس حدیث کی رو سے آپ بھی اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر اتنا کچھ لے سکتی ہیں جو معروف طریقے سے آپ کی اور آپ کے بال بچوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو اور کافی سے زیادہ لیناکسی طرح درست نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار سے زائد شادیوں کا مسئلہ سوال:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوشادیاں کیں جب کہ دوسرے تمام مسلمانوں کے لیے چار سے زائد شادیاں ناجائز ہیں۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟اکثر اعتراض کرنے والے اس قسم کا سوال کرکے ذہنوں میں شک وشبہ پیدا کرتے ہیں اور اسے مذاق کا موضوع بناتے ہیں۔ آپ سے تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔ جواب:۔ زمانہ جاہلیت میں ایک سےزائد شادیوں پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ زمانہ قدیم میں تقریباً ہر جگہ یہی حال تھا۔ ایک شخص جتنی چاہے شادیاں کرسکتا تھا۔ اسلام نے اس روایت کو ختم کیا اور بیک وقت چار سے زائد شادیوں پر پابندی لگادی۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس چار سے زائد بیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےفرمایا: "أَمْسِكْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا وَفَارِقْ سَائِرَهُنَّ " ان میں سے چار کا انتخاب کرلو اور باقی کو طلاق دے دو ۔ اور اسلام نے ایک سے زائد شادی کی بھی اجازت اس شرط پر دی ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان ایک جیسا اور انصاف پر مبنی سلوک کیاجائے۔ قرآن کا ارشاد ہے: "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً " (النساء:3) لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو ۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے مقابلے میں ایک خاص مقام
Flag Counter