Maktaba Wahhabi

295 - 360
طلاق سے متعلق چند اہم مسائل سوال:۔ کسی دن میں نے اپنی بیوی سے ناراضی کی وجہ سے طلاق کی قسم کھاتے ہوئے کہا کہ اگرتم فلاں دن تک گھر سے باہر نکلیں تو تمہیں طلاق کی قسم ہے میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں واقعی اسے طلاق دوں۔ میں تو محض تنبیہ کی غرض سے یہ بات کہہ گیا۔ اب اگر وہ گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو کیااسے طلاق ہوجائے گی؟کچھ ایسی شدید ضرورتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے اس کا گھر سے باہر جانا نہایت ضروری ہے۔ جواب:۔ آپ نے طلاق کی قسم دے کر نہایت سنگین غلطی کی ہے۔ اللہ نے طلاق کو اس لیے نہیں مباح کیا کہ اس کی قسم کھائی جائے۔ قسم تو صرف اللہ رب العزت کی کھانی چاہیے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور ایک قسم کھانا اسلامی شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے۔ طلاق کو اللہ نے قسم کھانے کی غرض سے نہیں مباح کیا کہ یہ ایک قسم کا علاج ہے۔ جب شوہر اور بیوی کےدرمیان نباہ کی کوئی صورت نہ ہو اوران کا الگ الگ ہوجانا ہی بہتر ہو ایسے موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے طلاق کو بطور علاج مباح کیا ہے۔ تاہم اگر کسی نے طلاق کی قسم کھائی اور اپنی بیوی سے کہا کہ تمہیں طلاق کی قسم اگر تم نے فلاں کام کیا فلاں سے ملاقات کی یا فلاں جگہ گئیں وغیرہ تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ بعض دوسرے فقہاء مثلاً ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ کیونکہ شریعت کی نظر میں طلاق دینے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ شوہر کامقصد طلاق دینا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کام سے منع کرنا ہوتا ہے جس کا تذکرہ وہ اپنی قسم میں کرتا ہے۔ مثلاً اگر وہ یہ کہتا کہ تمہیں طلاق کی قسم اگر تم نے فلاں شخص سے ملاقات کی تو ایسی صورت میں شوہر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی بیوی فلاں شخص سے نہ ملے۔ اس کا مقصد طلاق دینا نہیں ہوتاہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر اس کی بیوی نے یہ کام کرلیا جس سے
Flag Counter