Maktaba Wahhabi

379 - 360
معافی مانگ لینا کافی نہیں ہے۔ جہاں تک ناحق طریقہ سے دوسروں کا مال کھانے کا تعلق ہے تو اس کی توبہ اس وقت قبول ہو گی جب حق والے کو اس کا حق واپس کر دیا جائے۔ جیسا کہ پچھلے اسی باب میں بتایا جا چکا ہے کہ ایک شہید کے سارے گناہ شہادت کی وجہ سے معاف ہو جاتے ہیں سوائے اس گناہ کے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہےجب ایک شہید کی معافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق والے کا حق لوٹادے تو دوسروں کے لیے یہ بات بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔ البتہ اگر وہ صاحب حق کو انتہائی مفلسی کی وجہ سے مال واپس نہیں کر سکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ صاحب حق کے پاس جائے اور اسے اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرے کہ وہ اسے معاف کردے۔ اگر وہ معاف نہیں کرتا تو اس بات کا پکا ارادہ کرنا چاہیے کہ جوں ہی اس کے پاس پیسے آئیں گے پہلی فرصت میں صاحب حق کو اس کا حق واپس کردے گا۔ اگر پیسے مہیا نہ ہو سکے اور وہ مرگیا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیت کو یکھتے ہوئے اسے معاف کر دے گا۔ یہودیوں کی معافی سوال:۔ وٹیکن سٹی میں مسیحیوں کی طرف سے یہ سرکاری اعلان ہوا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے سولی پر لٹکانے اور ان کا خون کرنے کے جرم سے یہودیوں کو معاف کرتے ہیں۔ اس اعلان پر عرب دنیا میں ہلچل مچ گئی کیوں کہ اسلام کی نظر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر نہیں لٹکائے گئے بلکہ اللہ نے انہیں اوپر اٹھالیا۔ عیسائیوں کا یہ فیصلہ کیا اسلامی نقطہ نظر کے منافی نہیں ہے؟ اور کیا آج کے یہودی اپنے اسلاف کے جرم کے ذمہ دار ہیں؟ جواب:۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ سولی پر چڑھائے گئےاور نہ قتل کیے گئے بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اوپر اٹھالیا۔ لیکن مسلمانوں کے اس
Flag Counter