Maktaba Wahhabi

61 - 360
"وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ "(طہٰ:84) اور اے رب میں تیرے پاس جلدی چلاآیا تاکہ تو راضی ہوجائے ۔ 2۔ وہ جلد بازی قابل مذمت ہے، جو بغیر غور وفکر اور تدبر کے ہو۔ کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کرلینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔ یہ تو سستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ قرآن فرماتاہے: "وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۚ " (آل عمران:159) اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو۔ پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو ۔ 3۔ ٹھہر ٹھہر کرکام کرنے کایہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کردے کہ مقصد ہی فوت ہوجائے یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے۔ اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ایسا کیوں ہے؟ سوال:۔ ایک صحیح حدیث کامفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ!اپنی راہ میں خرچ کرنیوالوں کو برکت وفضل عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سارے ایسے افراد ملیں گے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی اور بہت سارے لوگو ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور داد عیش دے رہے ہیں، ایساکیوں ہے؟ جواب:۔ آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا ہے، وہ ایک صحیح حدیث کامفہوم ہے اور بخاری ومسلم میں اس طرح موجود ہے: "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللّٰهُمَّ
Flag Counter