Maktaba Wahhabi

225 - 315
سَامِدُونَ " (النجم:61) ’’اب کیا یہی وہ باتیں ہیں، جن پر تم اظہار تعجب کرتے ہو۔ ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اور گابجاکر انھیں ٹالتے ہو۔‘‘ حضرت اصمعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے ایک عورت کو بڑے خشوع وخضوع کی حالت میں نماز پڑھتےدیکھا ۔ نماز کے بعد وہ عورت آئینہ کے سامنے گئی اوربننے سنورنےلگی۔ حضرت اصمعی رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا ابھی توتم خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہی تھیں اور اب بن سنور رہی ہو!اس دین دار عورت نے جواب دیا کہ میں جب خدا کے سامنے کھڑی تھی توخشوع وخضوع کی حالت میں تھی اور اب اپنے شوہر کے پاس جارہی ہوں تو بن سنور کر۔ ہرکام کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔ 6۔ ہنسی مذاق حد کے اندر اور اعتدال کے ساتھ ہو۔ ہنسی مذاق میں پھوہڑپن نہ ہو کہ یہ چیز بُری لگنے لگے اور نہ بہت زیادہ ہوکہ اس سے اکتاہٹ شروع ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے خواہ عبادت ہی کی زیادتی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے حدیث میں ہے کہ کثرت سے نہ ہنسا کرو کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کردیتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ: "أعط الكلام من المزح، بمقدار ما تعطي الطعام من الملح" یعنی اپنی گفتگو میں اتنا مزاح پیدا کیا کرو جتنا کہ کھانے میں نمک ڈالتے ہو۔ شطرنج سوال:۔ کیا شطرنج کھیلنا جائز ہے؟ آپ نے اپنی کتاب "الحلال والحرام فی الاسلام" میں اسے تین شرطوں کے ساتھ جائز قراردیا ہے۔ وہ شرطیں یہ ہیں: (1)یہ کھیل نماز اور دوسرے فرائض سے غافل نہ کردے۔ (2)اس میں جوانہ شامل ہو۔
Flag Counter