Maktaba Wahhabi

258 - 315
(3)عطیہ دینے سے اگر بیوی اور بال بچوں میں سے کسی کو نقصان ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں عطیہ دینا جائز نہیں ہے۔ مجھ سے ایک عورت نے سوال کیا کہ میں اپنا ایک گردہ اپنی بہن کو عطیہ کرنا چاہتی ہوں لیکن میرا شوہر راضی نہیں ہے میں کیا کروں؟میں نے جواب دیا کہ چونکہ تم پر تمہارے شوہر کے حقوق زیادہ ہیں تم اپنا ایک گردہ عطیہ دینا چاہتی ہو۔ اس کے لیے تمہارا آپریشن ہو گا۔ جسمانی طور پر تم کمزور ہو جاؤ گی ساری زندگی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی اور یہ ساری باتیں تمہارے شوہر کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تم اپنے شوہر سے بھی اس بات کی اجازت لے لو۔ (4)عضو کا عطیہ کرنے والا عاقل و بالغ ہو۔ کم سن بچہ اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کر سکتا کیونکہ اپنے نفع و نقصان کی اسے تمیز نہیں ہے۔ یہی حال پاگل شخص کا ہے۔ (5)بچے اور پاگل کے سرپرست (ولی) کےلیے بھی جائز نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے ان کے کسی عضو کا عطیہ کریں۔ موت کے بعد عضو کا عطیہ کرنا جس طرح انسان اپنی زندگی میں اپنے کسی عضو کا عطیہ کر سکتا ہے اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ مرنے سے قبل یہ وصیت کر جائے کہ میرے مرنے کےبعد اس کا فلاں عضو عطیہ کر دیا جائے اس لیے کہ مرنے کے بعد لازمی طور پر اس کا جسم مٹی میں مل کر نیست و نابود ہو جائے گا اور کسی کے کام کا نہ رہے گا۔ نیست و نابود ہونے کے بجائے اس کا کوئی عضو کسی ضرورت مند کے کام آجائے تو یہ عمل یقیناً قابل تحسین اور باعث اجرو ثواب ہے۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے عطیہ دینے کی ممانعت ثابت ہو رہی ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر کسی صحابی سے کہا تھا کسی ایسی چیز کو دینے سے کیوں رک رہے ہو۔ جس کے دینے سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے لیکن کسی اور کا بھلا ہو جائے گا۔ ذرا غور کیجیے کہ مرنے والا مر جائے گا اور اس کے کسی بھی عضو سے نہ وہ خود فائدہ
Flag Counter