Maktaba Wahhabi

268 - 315
زور زبردستی کا حمل سوال:۔ بوسنیا کی ان لڑکیوں اور عورتوں نے جو سربیا کے وحشی اور ظالم فوجیوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بن چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو چکی ہیں۔ انھوں نے اس حرام حمل کے بارے میں دریافت کیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ حمل ان کی مرضی کے خلاف اور زور زبردستی کے ذریعے قرار پایا ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ وہ اس حرام حمل کا کیا کریں؟ کیا وہ اس کا اسقاط کراسکتی ہیں؟اگر نہیں گرا سکتی ہیں تو ولادت کے بعد یہ بچہ مسلم کہلائے گا یا کافر؟ جواب:۔ یہی سوال مجھ سے اریٹریا کی ان مسلم خواتین نے کیا تھا جواریٹریاکی تحریک آزادی کے دوران عیسائی فوجیوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بن چکی تھیں اور اس سے قبل ایسا ہی سوال ان مسلم خواتین نے کیا تھا جو بغیر کسی قصور کے جیلوں میں بند ہیں اور افسران جیل وقتاً فوقتاً ان سے اپنی جنسی پیاس بجھاتے رہتے ہیں ان سب کا سوال یہ تھا کہ اس زور زبردستی کے نتیجہ میں جو بچہ ان کے پیٹ میں پل رہا ہے وہ اس کا کیا کریں؟ اس سوال کے جواب میں میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ زور زبردستی کے ذریعے جنسی ہوس کا نشانہ بن جانے والی لڑکیاں اور عورتیں بے قصور اور بے گناہ ہیں۔ یہ گناہ ان کی مرضی سے نہیں ہوا ہے۔ اللہ کا قانون حق وانصاف پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو زنا سے زیادہ بھیانک جرم شرک کو بھی درگزرکر دیتا ہے اگر کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف شرک پر مجبورکیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ "إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ" (النحل:106) ’’سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ زبردستی کی جائے لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ ‘‘ بلکہ اضطراری حالت اور مجبوری میں حرام چیزیں بھی حلال ہو جاتی ہیں: "فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ
Flag Counter