Maktaba Wahhabi

317 - 315
میں صرف مسلم قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ لیکن ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بضد ہوگئے کہ صرف مسلم قیدیوں کو رہا کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ ان کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی رہا کرنا ہوگا۔ قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے عملی نمونوں کو دیکھ کر یہ سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور خاص کر ان غیر مسلموں کے ساتھ جو کسی اسلامی ملک میں اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غور کریں کہ جب کسی اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اچھے برتاؤ کی اتنی تاکید ہے تو کسی کافر ملک میں مسلم اقلیت کے لیے یہ بات کس قدراہم ہے کہ وہ غیر مسلم اکثریتی فرقہ کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ اگر ہم غیر مسلموں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کریں گے اور ان کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کریں گے تو پھر ہم کس منہ سے غیر مسلموں سے کہہ سکیں گے کہ اسلام اچھے اخلاق کا حکم دیتا ہے۔ اور اسلام بہت اچھا مذہب ہے ۔ ہم کیسے انھیں اسلام کی طرف راغب کرسکیں گے۔ ہماری بداخلاقی دیکھ کر تو وہ اور بھی ہم سے دور ہوجائیں گے، ہم سے نفرت کریں گے اور ہمارے دشمن بن جائیں گے اورآج کل یہی کچھ ہورہاہے۔ برائیوں کے انسداد کے لیے طاقت کا استعمال سوال:۔ کیا سماج میں برائیوں کی روک تھام کے لیے قوت و طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں فرمایا گیا ہے: "من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان" (مسلم) ’’تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ بہ زور طاقت اس کی روک تھام کرے۔ جو ایسا نہیں کر سکتا اسے چاہیے کہ اپنی زبان سے روک
Flag Counter