Maktaba Wahhabi

107 - 829
دونوں پر عمل ہوجاتا ہے، کیونکہ اگر یہ نجس ہے تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا دھونا واجب ہو، صرف کھرچنا کافی نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح کہ خون وغیرہ کا دھونا ضروری ہے، اور وہ لوگ بلا عفو ورعایت لہو کو صرف کھرچنا کافی نہیں سمجھتے۔ دوسرے طریقہ کی تردید ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی روایت سے ہوتی ہے جس کو دوسرے طریق سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ گھاس کی جَڑ سے مَنی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے اتارتی تھیں، اور خشک کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے کھرچ دیتی تھیں۔ پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے۔[1] یہ حدیث دونوں حالتوں میں ترکِ غسل کو متضمن(شامل) ہے۔ اور مالک رحمہ اللہ کے ہاں تو کھرچنا ویسے ہی غیر معروف ہے۔ وہ فرماتے ہیں دیگر نجاسات کی طرح اس کا دھونا بھی واجب ہے۔ لیکن کھرچنے کی حدیث ان کے خلاف دلیل ہے۔ پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح مسلم اور ترمذی کی روایات سے ان کے خلاف حجت قائم کی ہے، اور سب سے واضح ابن خزیمہ کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے کپڑے سے مَنی کھرچ دیتی تھیں۔ پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے۔ [2] اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس بارے میں کوئی شے وارد نہیں تو حدیث الباب میں کوئی شے ایسی نہیں جو مَنی کی نجاست پر دال ہو۔ کیونکہ مَنی کو دھونا محض فعل ہے، اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ [3] نیز حنفیہ کے مُسلَّمہ بزرگ امام طحاوی رحمہ اللہ بسندہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ مَنی کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کپڑے کو لگ جائے تو کیا کرے؟ فرمایا: کہ مَنی رینٹ یعنی سینڈھ اور تھوک کے بمنزلہ ہے، اور تجھے صرف اس کا لیر (کپڑا) یا گھاس اذخر سے پونچھنا کافی ہے۔ بحوالہ : نیل الأوطار۔ اس سے معلوم ہوا راجح مسلک ان لوگوں کاہے جو مَنی کی طہارت کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ’’فتح الباری‘‘وغیرہ۔ کپڑے پر لگی خشک یا تر منی کاکیا حکم : سوال: علقمہ رحمہ اللہ اور اسود رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اُترا صبح کو اپنا کپڑا دھونے لگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تجھے کافی تھا اگر مَنی تو نے دیکھی تو صرف اتنا مقام دھو ڈالتا اور جو
Flag Counter