Maktaba Wahhabi

114 - 829
یونس بن عبد الاعلی رحمہ اللہ کا بیان ہے: (( دَخَلتُ إِلَی الشَّافِعِیِّ رَحِمَہُ اللّٰہ، وَ عِندَہٗ المُزِینُ یَحلِقُ إِبِطَہٗ . فَقَالَ الشَّافِعِیُّ: عَلِمتُ أَنَّ السُّنَّۃَ النَّتفُ، وَلٰکِن لَا أَقوٰی عَلَی الوَجعِ)) [1] اگر کوئی زیرناف بال چالیس دن کے اندر نہ اتار سکے تو؟ سوال: زیرِ ناف بال اگر کوئی چالیس دن کے اندر نہ اتار سکے تو اس کا کفارہ کیا ہے ؟ جواب: کوتاہی پر اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں معافی کی درخواست ضروری کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی کفارہ نہیں۔ زیرِ ناف بال مونڈنے میں کتنی تاخیر کی جاسکتی ہے، اور ان کی مقدار کہاں تک ہے؟ سوال: کیا حکم ہے قرآن وحدیث وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس مسئلہ کے اندر کہ زیرِ ناف بال مونڈنا واجب ہیں یا سنت اور ان کے مونڈنے میں کتنی تاخیر کی جاسکتی ہے، اور ان کی مقدار کہاں تک ہے؟بعض لوگ ناف سے شروع کرکے گھٹنوں تک مونڈتے ہیں۔ کیا اس طرح کرنا صحیح ہے؟ اگر نہیں تو پھر سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں باحوالہ جواب مرحمت فرمائیں۔ جواب: ’’نیل الأوطار‘‘ میں ہے (( وَ ھُوَ سُنَّۃ بالإتفاق)) (۱؍۱۲۳) یعنی ’’زیرِ ناف بال مونڈنا بالاتفاق سنت ہے۔‘‘ [2] بال مونڈنے میں چالیس روز تک تاخیر ہوسکتی ہے۔ حدیث میں ہے: (( أن لَا نَترُکَ أَکثَرَ مِن أَربَعِینَ لَیلَۃً)) [3] امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( مَعنَاہُ: تَرکًا نَتَجَاوَزُ بِہٖ أَربَعِینَ، لِأَنَّہٗ وُقِّتَ لَھُم التَّرکُ أَربَعِینَ۔ قَالَ: وَالمُختَارُ أَنَّہٗ یُضبَطُ بِالحَاجَۃِ وَالطُّولِ۔ فَإِذَا طَالَ حَلَقَ۔ اِنتَھٰی ۔ قُلتُ : بَلِ المُختَار أَنَّہُ یَضبُطُ بِالاَربَعِینَ الَّتِی ضَبَطَ بِھَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَلَا یَجُوزُ تَجَاوُزُھَا وَ لَا یُُعَدُّ، مُخَالِفًا لِلسُّنَّۃِ مِن تَرکِ القَصِّ، وَ نَحوِہٖ، بُعد الطُّولِ إِلٰی اِنتَہَائِ تِلکَ الغَایَۃِ )) [4]
Flag Counter