Maktaba Wahhabi

125 - 829
مطلقاً جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’صحیح بخاری‘‘ میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ((بَابٌ لَا تُستَقبَلُ القِبلَۃُ بِغَائِطٍ اَو بَولٍ اِلَّا عِندَ البِنَائِ جِدَارٍ اَو نَحوِہ)) یہ استثناء ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے مستفاد ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک روز میں حفصہ( رضی اللہ عنہا ) کے گھر کی چھت پر چڑھا۔ دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں دو اینٹوں پر بیٹھے ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رُخ کیے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ مدینہ کی طرف کے اعتبار سے اس وقت آپ کی پیٹھ کعبہ کی طرف تھی۔ [1] اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت جو ’’مسند احمد‘‘ اور ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں ہے، اس میں استقبال کے جواز کی تصریح ہے۔ اس طرح ممانعت اور جواز کے مختلف دلائل پر عمل بھی ہو جاتا ہے بجائے اس کے کہ ایک کو چھوڑ دیا جائے۔ راوی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ اور کئی ایک علماء مطلقاً عدمِ جواز کے قائل ہیں۔ ان میں سے امام ابن حزم، ابن قیم، شوکانی، علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہما اللہ ہیں۔مذکورہ بالا دلائل کی رو سے میرا رجحان پہلے مسلک کی طرف ہے۔ لہٰذا لیٹرین کا رُخ جو مشرق اور مغرب کی طرف بن گیا ہے اسے اپنی حالت پر رہنے دیں، بدلنے کی ضرورت نہیں۔قطب تارے کا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ محض خرافات میں سے ہے۔ شرع میں اس کا کوئی اصل نہیں۔ کیا پاکٹ سائز قرآن مجید جیب میں رکھ کر بیت الخلاء جانا جائز ہے؟ سوال: پاکٹ سائز قرآنِ پاک جیب میں رکھ کر کوئی شخص رفعِ حاجت کے لیے بیت الخلاء میں جا سکتا ہے یا نہیں؟ جواب:قرآن مجید باہر رکھ کر بیت الخلاء میں داخل ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر سے منقوش (جس میں محمد رسول اللہ نقش تھا) انگوٹھی کو اتار کر بیت الخلاء میں داخل ہوتے۔[2] ’’سبل السلام‘‘ کے مذکورہ صفحہ میں ہے: (( وَدَلِیلٌ عَلٰی تَبعِیدِ مَا فِیہِ ذِکرُ اللّٰہِ عِندَ قَضَائِ الحَاجَۃ۔ وَ قَالَ بَعضُھُم : یَحرُمُ إِدخَالُ المُصحَفِ الخَلَائَ لِغَیرِ ضُرُورَۃٍ))
Flag Counter