Maktaba Wahhabi

146 - 829
ضروریات کے پیشِ نظر اس کا وقوع ناممکنات میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم وغیرہ میں یہ ثابت ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ایک وضوسے پانچ نمازیں ادا کی تھیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استعجاب(تعجب) کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس فعل کو جان بوجھ کر کیا ہے۔ مقصود امت پر اظہار سہولت تھا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:کہ ’’تیری جان کا تجھ پر حق ہے، تیری آنکھ کا تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل خانہ کا تجھ پر حق ہے۔ قصہ ہذا اس کے منافی ہے۔ پھر تین وہ اشخاص جن میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، دوسرے نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہاکہ میں رات بھر نہیں سوؤں گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عزمِ نیکی کو پسند نہیں فرمایا۔ جواباً فرمایا: میں سب سے زیادہ متقی پرہیز گار ہوں۔میں سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی۔ روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی۔ اس طرح میں نے کئی نکاح بھی کیے ہیں۔(( فَمَن رَغِبَ عَن سُنَّتِی فَلَیسَ مِنِّی )) [1] ’’ جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مختلف فرائض کی ادائیگی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقاتِ کار کو تقسیم کیا ہوا تھا۔ بفرضِ صحت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قصہ صریحاً اس حدیث کے خلاف ہے۔ اس طرح سے کئی قسم کے حقوق کا ضیاع(ضائع ہونا) لازم آتا ہے جو عقل و دانش کے منافی فعل ہے۔ لہٰذا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ہمارا حسنِ ظن یہ ہے کہ وہ اس قسم کے وضعی اور من گھڑت قصوں سے مُبَرَّا تھے۔ ’’علی رؤس الاشہاد‘‘(واضح طور پر) ان کا اعلان ہے۔ (( إِذَا صحَّ الحَدِیثُ فَھُوَ مَذھَبِی)) (میزان الکبریٰ) ’’صحیح حدیث ہی میرا مسلک ہے۔‘‘ توقع ہے کہ اصلاً امام صاحب کا مسلک و عمل بھی اسی کے مطابق ہو گا جو کچھ احادیث ِ بالا میں ذکر ہوا ہے۔(واللّٰہ تعالیٰ أعلم و علمہ أتم) کیا ہر وقت باوضو رہنا اور ہر تحیۃ الوضوء ادا کرنا ضروری ہے؟ سوال: ہر وقت با وضورہنا کیسا ہے ؟ کیا ہر وضوکے بعد دو رکعت پڑھنا ضروری ہوں گی؟اگر کسی وضوکے بعد ’’تحیۃ الوضوء‘‘ پڑھے اور کبھی نہ پڑھے تو کیسا ہے تحیۃ الوضوادا نہ کرنے کی صورت میں بھی باوضورہنا افضل ہے؟ جواب: باوضورہنا باعثِ فضیلت ہے اور وضوکے بعد دو رکعت ادا کرنے کی صرف ترغیب ہے، واجب
Flag Counter