Maktaba Wahhabi

169 - 829
الاعتصام مؤرخہ ۲۳ شعبان ۱۴۱۲ھ میں شائع ہو چکا ہے ۔ دورانِ وضوء اگر ہوا خارج ہو جائے: سوال: اگر وضوکرتے ہوئے ریح خارج ہو جائے تو کیا وضوجاری رکھا جائے یا نئے سرے سے شروع کیا جائے؟ جواب:اس حالت میں نئے سرے سے وضوکرنا ہوگا، کیونکہ مکمل طہارت عبادت کی قبولیت کے لئے شرط ہے۔ کیا خون نکلنے سے وضوٹوٹ جاتا ہے؟ سوال: کیا خون نکلنے سے وضوٹوٹ جاتا ہے؟ جواب: دونوں شرم گاہوں کے علاوہ جسم کے کسی حصے سے خون نکلنے سے وضونہیں ٹوٹتا۔ سنن ابی داؤد میں حدیث ہے کہ ایک صحابی نے نکلتے خون میں نماز ادا کی تھی۔ [باب الوضومن الدم] اکثر اہل علم کا قول یہی ہے۔ اور یہی حق ہے۔ علامہ صنعانی رحمہ اللہ ’’ سبل السلام‘‘ میں فرماتے ہیں: ((قَالَ الشَّافِعِیُّ، وَ مَالِکٌ، وَ جَمَاعَۃٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ، وَالتَّابِعِینِ : أَنَّ خُرُوجَ الدَّمِ مِنَ البَدَنِ غَیرَ السَبِیلَینِ لَیسَ بِنَاقِضٍ)) ’’شافعی، مالک ،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ شرم گاہ کے علاوہ بدن سے خون نکلنے سے وضونہیں ٹوٹتا۔‘‘ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! عون المعبود (۱؍ ۷۸) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں ((بَابُ مَن لَم یَرَ الوُضُوئَ اِلَّا مِنَ المَخرَجَینَ مِن القُبُلِ وَالدُّبُرِ)) کے تحت دلائل سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ سبیلین کے علاوہ خون نکلنے سے وضونہیں ٹوٹتا۔ کیا خون نجس ہوتا ہے اور کیا خون بہنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟ سوال: امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ باجماع اہل علم خون نجس ہے۔ علامہ وحید الزمان ’’شرح ابن ماجہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شراب ، خون، مردار اگرچہ حرام ہیں لیکن ان کی نجاست ثابت نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زخموں سے خون نکلنے کی حالت میں بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ کیا امام نووی کے دعوی اجماع کی کوئی دلیل ہے ؟ جواب: اس سے مراد ان کی غالباً دمِ مسفوح (ذبح کے وقت نکلنے والا خون) ہے۔ جس طرح کہ ’’سورۃ الانعام‘‘ میں ہے اور وہ خون جو گوشت کے ساتھ لگا ہوتا ہے یہ حرام نہیں۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter