Maktaba Wahhabi

183 - 829
استدلال کیاہے کہ حضرت عبد اﷲبن مسعود رضی اللہ عنہما نے جامع مسجد کھجوروں کے تاجروں سے بدل دی۔ یعنی بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شارع عام تنگ ہونے پر مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ڈال دیا۔ مسجد کی جگہ تبدیل کرنا: سوال: ایک کاٹن فیکٹری کے مالک نے اپنے مزدوروں کے لیے تقریباً ڈھائی مرلہ 2ب میں مسجد بنوائی تھی، اس وقت اسے کاٹن فیکٹری کی لیبر اوراس کا عملہ ہی ملحوظِ خاطر تھا۔ اس لیے اس نے فیکٹری کے ایک کونہ میں آبادی سے ہٹ کر الگ ایک مسجد بنوائی۔ اب وہ آدمی اس کاٹن فیکٹری کے پلاٹ بناء کر جگہ فروخت کر رہا ہے۔ اس مسجد کی آباد کاری کے لیے کیا مسجد اسی جگہ رہنی چاہیے یا وہاں سے دوسری جگہ آئندہ جو آبادی ہونیوالی ہے اس میں منتقل کرلی جائے۔ اگر اسی جگہ مسجد رہے تو اس کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے مسجد مذکورہ بے آباد ہو گی۔ بَیِّنُوا تُوجروا۔ جواب: بوقت ِ ضرورت مسجد دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کہ اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی، تو میں بیت اﷲ کا خزانہ نکال کر فی سبیل اﷲ تقسیم کردیتا، اور بیت اﷲ کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا، اور حجر کا کچھ حصہ بیت اﷲ میں داخل کردیتا۔ [1] بیت اﷲ کے خزانہ سے مراد وہ مال ہے، جو لوگ بیت اﷲ کی خاطر نذر کیا کرتے تھے۔ جیسے مساجد میں لوگ دیتے ہیں۔ یہ خزانہ بیت اﷲ میں اسی طرح دفن تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ یہ بیت اﷲ کی حاجت سے زائد اور بے کار ہے، تو خیال ہوا کہ اس کو فی سبیل اﷲ تقسیم کردیا جائے۔ لیکن کفار چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، خطرہ تھا کہ کہیں وہ بدظن نہ ہوجائیں۔ اس لیے چھوڑ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب وقف کی حالت ایسی ہوجائے کہ ضائع ہوتی نظر آئے تو اس کی کوئی ایسی صورت بنانی چاہیے۔ جس سے وہ ضائع نہ ہو۔ ’’کشف القناع عن متن الاقناع‘‘(۲؍۴۷۱)میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے تبدیل وقف پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جامع مسجد کھجوروں کی تجارت گاہ سے بدل دی۔ یعنی بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شارعِ عام تنگ ہو گئی، تو
Flag Counter