Maktaba Wahhabi

184 - 829
انھوں نے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ڈال دیا۔ ملاحظہ ہو! فتاویٰ ابن تیمیہ (۳؍۲۸۸) غرض اس قسم کے تصرُّفات اوقاف اور خیرات میں درست ہیں، جن سے وہ ضائع نہ ہوں، بلکہ بڑھیں یا محفوظ ہو جائیں بلکہ حنفیہ کا بھی آخری فتویٰ اسی پر ہے۔ چنانچہ ردّ المختار (۳؍۴۰۷) میں اس کی تصریح کی ہے اور امام محمد رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وقف بے کار ہو جائے، تو اس کے اصل مالک یا وارثوں کی ملک میں ہو جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ وقف کی غرض پر مَدار ہے۔ حتی الوسع (ممکن حد تک) اس کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔فتاویٰ اہلِ حدیث (۱؍۳۲۳۔۳۲۴) بایں صورت مسجد ہذا کو وہاں منتقل کردیا جائے،جہاں نمازوں کے لیے مفید تر ثابت ہو سکے۔ مسجد سے ملحقہ کمروں کو مدرسۃ البنات میں تبدیل کرنا اور مسجد کا فنڈ اس پر خرچ کرنا: سوال: ہمارے گاؤں میں صرف ایک ہی مسجد ہے، جہاں تمام لوگ اکٹھے نماز پڑھتے ہیں، مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ بلکہ اضافی دو تین کمرے مسجد کی دائیں طرف، اور اسی طرح ایک کمرہ اور برآمدہ مسجد کی بائیں طرف ہے۔ جس میں بچے ناظرہ قرآن مجید، صبح کی نماز کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پڑھتے ہیں۔ دائیں طرف پر مین گلی، اور مسجد کا مین گیٹ ہے اور اسی طرف کمروں کے آگے خوبصورت پارک بنے ہوئے ہیں۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ گاؤں کی دو تین لڑکیاں مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئی ہیں۔ جن میں عالِمہ اور فاضلہ بھی ہیں۔ لڑکیاں ما شاء اﷲ کافی ذہین اور خلوص کے ساتھ محنت کرنے والی ہیں۔ فی الوقت وہ بغیر کسی معاوضہ کے گاؤں کی بچیوں کو پڑھا رہی ہیں، اور انتہائی اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اب ہمیں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ (۱)کیا مسجد کی بائیں طرف والے کمرے اور برآمدے کو ہم مدرسۃ البنات میں تبدیل کر سکتے ہیں؟ (۲)کیا مسجد کے نام پر جمع شدہ رقم اس تعمیر پر لگائی جا سکتی ہے؟ کیونکہ گاؤں والے مسجد کے نام پر چندہ دیتے ہیں او ر مسجد کی تعمیر الحمد لِلّٰہِ مکمل ہے۔ دوسری سرگرمیوں میں لوگ اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔(۳)کیا مسجد کی جمع شدہ رقم سے ان معلمات کی خدمت کی جا سکتی ہے، جو فی الوقت رضائے الٰہی کے لیے پڑھا رہی ہیں۔ بذاتِ خود انھوں نے کچھ مطالبہ نہیں کیا جب کہ مالی لحاظ سے وہ کچھ زیادہ مضبوط بھی نہیں ہیں۔ (۴) بچوں کو ناظرہ قرآن مجید پڑھانے والے حافظ صاحب کی خدمت انہی پیسوں سے کی جا سکتی ہے جب کہ گاؤں والے صرف تنخواہ کے نام پر اتنی زیادہ خدمت نہیں کرتے اور حافظ صاحب کی مالی
Flag Counter