Maktaba Wahhabi

187 - 829
جماعت کرائی تھی۔ [1]اس پر شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ((وَ اِنَّ المَکَانَ المُتَّخَذَ مَسجِدًا مِنَ البَیتِ لَا یَخرُجُ عَن مِلکِ صَاحِبِہٖ)) (فتح الباری:۳؍۶۲) یعنی ’’اس حدیث میں جملہ مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ گھر کی جگہ میں سے کسی حصہ کو مسجد قرار دینے سے وہ مالک کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی۔ ‘‘ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: کہ جمہور کے نزدیک وقف اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وقفیت(وقف شدہ چیز) کی تصریح ہو یا صیغہ متحمل ہو اور مالک کی نیت وقف کی ہو۔ (فتح الباری : ۵؍۳۹۹) جب کہ زیرِبحث مسئلہ میں دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ اس لیے جائے مصلیٰ (نماز کی جگہ)مسجد کے حکم میں نہیں اور آپ کی نمازیں بلا تردد درست ہیں۔ نماز کے لیے مخصوص کی گئی جگہ کا حکم: سوال: ایک آدمی نے آبادی کے قریب اپنی زرعی زمین کے ایک حصے کو مخصوص نشانات لگا لیے تھے کہ یہاں نماز ادا کی جائے گی وہ نماز پڑھتا بھی رہا اب اس کی وفات کے بعد وہاں کوئی نماز ادا نہیں کرتا۔ اب کیا اس جگہ کو زرعی اراضی میں ملایاجا سکتا ہے جبکہ قریبی آبادی میں مسجد موجود ہے؟ جواب: اگر مالک نے زمین کا یہ ٹکڑا وقف نہیں کیا تھا تو پھر اس کو مملوکہ زرعی زمین سے ملایا جا سکتا ہے اور اگر اس کو مسجد کے لیے وقف کردیا تھا تو پھر ملانا ناجائز ہے ۔ ہاں البتہ اس صورت میں قریب مسجد ہونے کی بناء پر اس کی ضرورت باقی نہ ہو تو اس کو فروخت کرکے رقم موجود مسجد پر صرف کردی جائے۔ راستے کی جگہ شامل کرکے مسجد کی توسیع کا حکم: سوال: ہمارے گاؤں میں ایک مسجد ہے جس کے مشرق،مغرب اور جنوب کے اطراف میں سرکاری سڑکیں ہیں جب کہ شمال کی جانب گھر ہیں۔ جنوب کی طرف جو راستہ ہے اس سے متصل جنوب ہی کی طرف خالی جگہ ہے جو کہ ملکیتِ سرکار ہے اور پنچایت گھر کے لیے ہے کچھ لوگ مسجد کو توسیع کرنا چاہتے ہیں جب کہ پہلی مسجد ہی نمازیوں کی ضرورت پوری کرکے خالی رہتی ہے جبکہ ایک منزلہ زائد بھی ہے۔ توسیع کرنے والوں کا خیال ہے کہ جنوب کی طرف جو راستہ ہے اسے مسجد میںشامل کرلیں اور اس راستہ کے متصل جنوب ہی کی طرف راستہ چھوڑ دیں جو کہ ملکیتِ سرکار ہے۔ گاؤں کے وہ لوگ جن کے استعمال میں یہ راستہ کثرت سے آتا ہے
Flag Counter