Maktaba Wahhabi

212 - 829
((اِنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: کَمَا یَقُولُ المُؤذِّنُ: حَتّٰی یَسکُتَ)) یعنی ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کلمات اس طرح دہراتے جس طرح مؤذن کہتا حتی کہ وہ خاموشی اختیار کرتا۔‘‘ اور صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: اس سے بھی زیادہ واضح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح مسلم میں بایں الفاظ ہے: ((إِذا قَالَ المُؤَذِّنُ : اللہُ أَکبَرُ اللہُ أَکبَرُ، فَقَالَ أَحَدُکُم: اللہُ أَکبَرُ اللہُ أَکبَرُ، ثُمَّ قَالَ : أَشہَدُ أَن لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، قَالَ: أَشہَدُ أَن لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، ثُمَّ قَالَ : أَشہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ قَالَ: أَشہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) [1] ان روایات میں بصورتِ اجابت مؤذن کی پیروی کی صراحت موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک وقت میں سب کی پیروی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ صرف ایک ہی اذان کا جواب دینا کافی ہے جب کہ حدیث میں تعبیر بھی صیغۂ اِفراد (مفرد صیغہ) اس امر کی مؤید ہے(واللّٰہ أعلم) اذان کے دوران باتیں اور بعد میں جواب دینا: سوال: اذان ہو رہی ہو اور کوئی آدمی باتیں کرتا رہا،اذان مکمل ہونے کے بعد جواب میں ساری اذان کے لفظ کہہ لے تو یہ کیسا ہے؟ جواب: اذان کے کلمات کا جواب ساتھ ساتھ دینا چاہیے، اور باتیں کرنے سے احتراز ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ ساتھ جواب نہ دے سکے، تو بظاہر بعد میں عدمِ استدراک ہے۔ یعنی جواب نہ دیا جائے۔ امام کا خود ہی اذان اور تکبیر کہنا: سوال: کیا امام خود اذان دے کر اور خود ہی تکبیر کہہ کر خود ہی جماعت کروا سکتا ہے؟ جواب: عہد اول سے اصل معمول بہا ( جس پر عمل رہا) یہ ہے کہ موذّن امام سے علیحدہ ہو، لیکن اگر امام خود ہی مؤذن اور مکبّر بن جائے تو شریعت میں اس کا بھی جواز موجود ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا رب بکریوں کے اس چرواہے سے تعجب کرتا ہے، جو پہاڑ کی چوٹی کے اوپر بکریاں چراتا ہے، وہاں اذان دیتا، اور نماز پڑھتا ہے ۔ اﷲتعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: کہ میرے
Flag Counter