Maktaba Wahhabi

213 - 829
اس بندے کی طرف دیکھو، نماز کے لیے اذان اور اقامت کہتا ہے۔ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں نے اسے معاف کرکے جنت میں داخل کردیا۔ (ابوداؤد، النسائی) [1] اس طرح دوسری روایت میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور اس کے رفیق سفر سے فرمایا: ((اِذَا أَنتُمَا خَرَجتُمَا فَأَذِّنَا ثُمَّ أَقِیمَا ثُمَّ لْیَؤُمَّکُمَا أَکبَرُکُمَا)) [2] یعنی ’’جب تم دونوں سفر میں نکلو تو تم دونوں کہو اذان، پھر دونوں اقامت کہو، پھر دونوں سے جو بڑا ہے، وہ امامت کرائے۔‘‘ پہلی حدیث میں خود امام کی اذان اور اقامت کی تصریح موجود ہے، جب کہ دوسری روایت میں دونوں کو اذان اور اقامت کے جواز میں برابر قرار دیا گیا ہے۔ تفاوت صرف اطاعت کے اعتبار سے ہے کہ اس کا حقدار بڑا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام اذان اور اقامت کہہ سکتا ہے۔ شرح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اگر کوئی شخص امامت اور اذان ہر دو کو جمع کرے تو اس میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ مستحب یہ بات ہے کہ اس طرح نہ کرے ۔بعض نے کہا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔محققین اور اکثر علماء کا کہنا ہے: کہ اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔ بلکہ یہ مستحب ہے۔ یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ فقہ حنفی شافعی وغیرہ میں تو افضل ہی اس بات کو قرار دیا ہے کہ امام خود ہی مؤذن ہونا چاہیے۔ ابن عابدین رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہ نفس ِ نفیس أذان اور اقامت دونوں کو ملا کر کہا کرتے تھے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول مشہور ہے کہ اگر خلافت کے ساتھ میں اذان دینے کا کام بھی نبھاہ سکتا تو اذان دیاکرتا۔ منفرد شخص کا بغیر اذان کے نماز پڑھنا: سوال: اگر کسی علاقے میں اہلِ حدیث مسجد نہ ہو اور ایک مثل ہونے پر کوئی شخص نماز عصر ادا کرناچاہتا ہو۔ اس علاقے میں اس وقت عصر کی اذان کسی نے نہیں دی۔کیا منفرد شخص ایسے وقت میں اذان کے بغیر نماز ادا کرے گا؟ جواب: ایسی صورت میں اذان اوراقامت کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ عمومی دلیلوں کی بناء پر احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔ اگرچہ اس کے وجوب اور عدمِ وجوب میں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔[3]
Flag Counter