Maktaba Wahhabi

253 - 829
امام الماوردی کی رائے: مُفَسِّرقرطبی(محمد بن احمد انصاری، متوفی۶۷۱ھ) اپنی تفسیر میں امام الماوردی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ((َنِ المَاوَردِیِّ ، فَاَمَّا الاَذَانُ الاَوَّلُ، فَمُحدَثٌ۔ فَعَلَہٗ عُثمَانُ لَیَتَأَھَّبَ النَّاسُ لِحُضُورِ الخُطبَۃِ عِندَ اتّسَاعِ المَدِینَۃِ، وَ کَثرَۃِ أَھلِھَا )) [1] ’’ مروّجہ پہلی اذان شرعی اذان نہیں۔ جب مدینہ منورہ وسیع ہو گیا، اور اس کے باشندوں کی تعداد بڑھ گئی تو اس وقت خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس لیے اذان کہلوانی شروع کی تھی، تاکہ لوگ تیار ہو کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے پہلے مسجد میں پہنچ سکیں۔‘‘ اس تفصیل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد یہ حقیقت پوری طرح نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ گو خلیفۂ راشد امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس مروّجہ اذان کی طَرح ڈالی تھی۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حینِ حیات میں اس کو وہ قبولِ عام حاصل نہ ہو سکا، جو مسنون اذان کو شرعاً حاصل ہے۔ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ، امام حسن بصری اور امام المحدثین محمد بن مسلم بن شہاب زہری رحمہما اللہ ایسے فقہائِ حدیث اس اذان پر قولاً اور عملاً نکیر نہ کرتے۔ چنانچہ انہی وجوہ کے پیشِ نظر متعدد علماء محققین، ماہرینِ سنت اور شارحینِ حدیث نے خالص اتباعِ سنت کی نزاکتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ہی اذان کو ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اس سلسلے میں مزید چند آراء پیش خدمت ہیں۔ مُجَدَّدِ وقت امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے صائب: فرماتے ہیں: ((وَ اُحِبُّ أَن یَّکُونَ الأَذَانُ یَومَ الجُمُعَۃِ، حِینَ یَدخُلُ الاِمَامُ المَسجِدَ، وَ یَجلِسُ عَلٰی مَوضِعِہِ الَّذِی یَخطُبُ عَلَیہِ خَشَبٍ ، أَو جَرِیدٍ، أَو مِنبَرٍ، أَو شَیئٍ مَرفُوعٍ لَہٗ، أَو الأَرضِ۔ فَإِذَا فَعَلَ أَخَذَ المُوذِّنُ فِی الأَذَانِ۔ فَإِذَا فَرَغَ قَامَ فَخَطَبَ، وَ لَا یَزِیدُ عَلَیہِ۔ وَ اُحِبُّ أَن یَؤُذِّنَ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ)) [2] ’’میں تو اس کوپسند کرتا ہوں کہ جب خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے تیار ہو کر منبریا چبوترہ وغیرہ پر
Flag Counter