Maktaba Wahhabi

259 - 829
اطلاع کے لیے بڑا موزوں تھا۔ بالفاظ دیگر یہ ایک مقامی اور ہنگامی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کی ایک انتظامی تدبیر تھی۔ ثالث: ہر چند حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں مذکورہ بالا ہنگامی اور مقامی ضرورت کے پیشِ نظر اپنے اجتہاد سے اس اذان کا آغاز فرمایا تھا، مگر بایں ہمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں اس اذان کو وہ قبولِ عام حاصل نہ ہو سکا جو کہ متوارث اور خالص مسنون اذان کو حاصل ہے۔ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے دارالخلافہ کوفہ شہر میں اس کو نظر انداز کرکے ایک اذان پر اکتفاء نہ فرماتے اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے عاشقِ سنت صحابی ،امام زُہری اور امام حسن بصری رحمہما اللہ جیسے تابعین اور فقہاء اس اذانِ عثمانی کو بدعت اور مُحدَث کہنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ فرماتے۔ لہٰذا ان کے اس طرزِعمل سے ثابت ہوا کہ جمعۃ المبارک کی ایک ہی اذان سنتِ نبوی، سنت ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اورشرعی اذان ہے اور اذانِ عثمانی کو ہر لحاظ سے مسنون اور شرعی اذان باور کرلینا درست نہیں۔ رابع: حضرت علی،حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما ، امام زہری، امام حسن بصری، امام شافعی رحمہما اللہ ایسے فقہائِ دین اور اساطینِ علم کی مذکورہ تنقیدات اور تنقیحات سے قطع نظر یہ بات بھی بالکل ظاہر ہے کہ اب ہمارے اس ترقی یافتہ مشینی دَور میں ہمارے شہروں اور دیہات میں اذانِ عثمانی کی مذکورہ عِلَّت اور سبب بو جوہ ذیل متحقق نہیں۔ اوّلاً: اس لیے کہ شہر تو شہر ہیں ان کا ذکر ہی کیا اب تو ہر ایک گاؤں میں ایک سے زیادہ مساجد میں جمعہ پڑھا جاتا ہے اور ان متعدد مساجد میں پڑھی جانے والی متعدد اذانیں آبادی کے ہر ایک کونے تک بسہولت سنی جاتی ہیں اور یوں لوگوں کو بآسانی جمعہ کے وقت کا علم ہو جاتا ہے۔ ثانیاً: اس لیے کہ اب شہروں اور قصبات کی طرح دیہات کی طرح ہر ایک چھوٹی بڑی مسجد میں آلۂ تجہیر الصوت (لاؤڈ سپیکر) نصب ہوتا ہے اور اس میں پڑھی جانے والی اذان تو گہری نیند میں خراٹے بھرنے والوں کوبھی چونکا دیتی ہے اور مزید اب گھڑیوں کی بہتات نے اس مشکل کو ویسے بھی کوئی مشکل نہیں رہنے دیا۔ ہماری رائے: اس لیے اندریں حالات ہماری ناقص رائے میں اذان عثمانی کے معاملے میں بھی دوسرے شرعی مسائل کی طرح خود صاحبِ شریعت جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اسوۂ حسنہ کا اتباع ہی أقرب إلی الصواب
Flag Counter