Maktaba Wahhabi

260 - 829
اور مُوجبِ فلاح و فوز اور بلندیٔ درجات و حسنات ہے۔ کیونکہ جس سبب مبرر کے پیشِ نظر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس زائد اذان(عثمانی) کو رواج بخشا تھا۔ اب وہ سبب متحقق نہیں۔ لہٰذا اب بھی اس اذان کو مسنون اور شرعی اذان باور کرکے اس کے جاری رکھنے پر اصرار کرنا صحیح نہیں۔ ہاں اگر کسی جگہ واقعی اس اذان کی ضرورت ہو تو یہ اذان دی جا سکتی ہے۔ مگر بلا ضرورت اس کو اختیار کیے رکھنا اتباعِ سنت کے تقاضوں کے منافی ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب اذان کہاں دی جائے؟ اب رہا یہ سوال کہ اذان کہاں دی جائے؟ خطیب کے سامنے مسجد کے اندر یا مسجد کے صحن میں یا اس کے دروازے پر یا مسجد کے احاطہ سے باہر۔ تو واضح ہو کہ اہلِ علم نے اذان کی تعریف اس طرح فرمائی ہے: (( اَلأَذَانُ لُغَۃً: اَلاِعلَامُ ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی :﴿وَ أَذَانٌ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ ﴾(التوبۃ:۳) اَی إِعلَامٌ مِنھُمَا۔ وَ شَرعًا : ھُوَ الاِعلَامُ بِدُخُولِ وَقتِ الصَّلٰوۃِ المَفرُوضَۃِبِاَلفَاظٍ مَخصُوصَۃٍ)) [1] ’’لہٰذا اس اذان کی لغوی اور شرعی تعریف سے معلوم ہوا کہ اذان محض اس لیے دی جاتی ہے تاکہ نماز پڑھنے والوں کو فرض نماز کے وقت کا علم ہو جائے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بلند مقام پر اذان کہلواتے تھے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سنائی دے سکے۔ لہٰذا اذان خواہ پہلی ہو یا دوسری کسی ایسے بلند مقام، منارہ یا اونچی جگہ پر دینی چاہیے۔ جہاں سے دُور دُور تک آواز پہنچ سکے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سن سکیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم اور اصحابِ فتویٰ نے مسجد کے اندرمنبر کے قریب اذان دینے کو بدعت قرار دیا ہے۔ چند تصریحات ملاحظہ فرمائیے۔ الشیخ محمود محمد خطاب السبکی تصریح فرماتے ہیں: ((أَمَّا مَا یُفعَلُ الآن مِن وُقُوعِ الأَذَانَینِ فِی مَکَانٍ وَّاحِدٍ، أَو أَحَدِھِمَا فَوقَ المَسجِدِ۔ وَالآخَرُ دَاخِلَ المَسجِدِ ، فَلَیسَ مُوَافِقًا لِمَا کَانَ عَلَیہِ سَیِّدُنَا عُثمَانُ، وَ لَا مَا کَانَ عَلَیہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ أَبُو بَکرٍ، وَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُمَا )) [2] ’’اب جو دونوں اذانیں ایک ہی جگہ( مسجد کے اندر منبر کے نزدیک) دی جاتی ہیں یا ایک مسجد کی
Flag Counter